جمعیۃ بلڈنگ میں منعقد جلسہ استقبال اسلامی سال نو میں سن ہجری کے تحفظ اور فروغ کا عزم کیا گیا
کانپور (محمد عثمان قریشی) جمعیۃ علماء شہر، مجلس تحفظ ختم نبوت اور حق ایجوکیشن اینڈ ریسرچ فاؤنڈیشن کے زیر اہتمام، گزشتہ سالوں کی روایت کو برقرار رکھتے ہوئے، اس سال بھی اسلامی سال نو 1447ھ کے استقبال میں ایک پراثر اور فکرانگیز "جلسۂ استقبالِ اسلامی سال نو” جمعیۃ بلڈنگ، رجبی روڈ، کانپور میں منعقد ہوا۔ اس بامقصد پروگرام میں جمعیۃ علماء کے ذمہ داران اور شہر کے جید علمائے کرام شریک ہوئے۔
مہمان خطیب مولانا عبدالملک قاسمی نے سن ہجری کے تحفظ کو اسلامی تہذیب کی بقاء سے تعبیر کرتے ہوئے کہا کہ اسلامی کیلنڈر نہ صرف ایک تاریخ کا نظام ہے بلکہ ہماری دینی شناخت، تہذیبی تشخص اور روحانی وراثت کی علامت ہے۔ افسوس کہ آج امت کا ایک بڑا طبقہ ہجری مہینوں، مقدس ایام اور اسلامی سال کے رموز سے ناواقف ہوتا جا رہا ہے۔ ہمیں اس غفلت کو ختم کرنا ہوگا۔
انہوں نے مولانا متین الحق اسامہ قاسمیؒ کی خدمات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ مولانا مرحوم اسلامی شعائر کے تحفظ کے لیے ایک حساس دل رکھتے تھے۔ آج ان کے فرزند مولانا کی تحریک کو نئی جہت دے رہے ہیں، یہ ہمارے لیے بڑی خوش نصیبی ہے۔
مفتی عبدالرشید قاسمی نے اپنے پُرمغز خطاب میں عملی تجاویز دیتے ہوئے کہا کہ ہمیں عوامی سطح پر ایسی تحریک برپا کرنی چاہیے جس سے ہر ادارہ، دفتر، مدرسہ، شادی کارڈ، میٹنگ نوٹس، اور تعلیمی اداروں کی اسناد میں سن ہجری کی تاریخ کا اندراج لازم قرار پائے۔ اس کے لیے بیداری مہمات، پوسٹرز، لیکچرز، اور تعلیمی مقابلوں کا انعقاد ضروری ہے۔ انہوں نے سن ہجری کو اسلامی تمدن کی علامت قرار دیتے ہوئے کہا کہ جو قوم اپنی تاریخ بھول جائے، وہ تاریخ میں کہیں باقی نہیں رہتی۔ ہمیں سن ہجری کو صرف یاد نہیں رکھنا بلکہ اپنی آئندہ نسلوں کو اس کا شعور منتقل کرنا ہے۔
مولانا امین الحق عبداللہ قاسمی نے کہا کہ سن ہجری خلیفہ ثانی سیدنا حضرت عمر فاروقؓ کی یادگار ہے جنہوں نے اسے ریاستی سطح پر نافذ کیا۔ آج جبکہ عوام و خواص سبھی اپنی تقویم سے غافل ہوچکے ہیں، ایسے میں حضرت عمرؓ کی اس عظیم یادگار کو زندہ کرنے کیلئے جمعیۃ علماء شہر کانپور کی جانب سے سماج کی نمائندہ شخصیات، تعلیمی اداروں کے سربراہان، اور دینی رہنماؤں کا خصوصی اجلاس منعقد کیا جائے گا جس میں سن ہجری کے فروغ کے لیے مشترکہ عملی لائحہ عمل طے کیا جائے گا۔
مولانا محمد الماس نے اپنے فکرانگیز بیان میں کہا کہ زندہ قومیں اپنی چھوٹی بڑی تہذیبی علامات کو ہر حال میں محفوظ رکھنے کی پوری کوشش کرتی ہیں ان کا یہی برتاؤ ان کی تہذیب سے نہ ٹوٹنے والا رشتہ پیدا کرتا ہے اور ان کو دوسری تہذیب میں ضم ہونے سے بچاتا ہے۔ ظاہر ہے اس میں ہر اس چیز کو دخل ہے جو ہم کو ہمارے ماضی سے جوڑے اور تاریخ سے وابستہ کرے اس میں جو کردار تقویم ہجری کی حفاظت و اشاعت سے پیدا ہوگا وہ کسی عقل مند پر مخفی نہیں ہے۔
اس کے علاوہ مولانا انصار احمد جامعی اور زبیر احمد فاروقی نے بھی اس موقع پر اپنے خیالات کا اظہار کیا اور سن ہجری کو اپنی شناخت کا لازمی حصہ قرار دیتے ہوئے اس کے فروغ کے لیے عوامی بیداری کو وقت کی اہم ضرورت بتایا۔
پروگرام کے اختتام پر حق ایجوکیشن کے طلباء کی جانب سے تیار کردہ سالانہ وال میگزین کا افتتاح جمعیۃ علماء کے شہر صدر ڈاکٹر حلیم اللہ خان کے ہاتھوں عمل میں آیا۔