تین روزہ تربیتی نشستوں میں سو سے زائد محققین و تخصصات کے فضلاء شریک، تنقیدات کے عقلی و شرعی جوابات، مسلکی تعصب اور مغربی اعتراضات زیر بحث
کانپور ( محمد عثمان قریشی) اسلامی شریعت کے خلاف فکری یلغار، تہذیبی حملوں اور قانونی دباؤ کے پس منظر میں اہل علم اور فضلائے مدارس کو منظم کرنے کی ایک سنجیدہ اور مربوط کوشش کے طور پر اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا کی جانب سے کل ہند اسلامک علمی اکیڈمی کانپور اور حق ایجوکیشن اینڈ ریسرچ فاؤنڈیشن کے اشتراک سے اکبر اعظم ہال، رجبی روڈ کانپور میں ایک اہم سہ روزہ فقہی و فکری ورکشاپ کا آغاز ہوا۔
جس میں ریاست کے مختلف علاقوں سے تخصصات فی الفقہ اور افتاء کے منتخب طلبہ، محققین اور اساتذہ کی سو سے زائد تعداد شریک ہوئی۔ ورکشاپ کا مرکزی عنوان ”موجودہ دور میں اسلامی شریعت کا دفاع: منہج اور طریقہ کار” رکھا گیا ہے، اور اس کی ہر نشست میں بدلتے ہوئے فکری، قانونی، سماجی اور دعوتی چیلنجز پر مدلل محاضرے پیش کیے جا رہے ہیں۔
افتتاحی نشست کی صدارت دارالعلوم ندوۃ العلماء کے ممتاز استاذ مولانا عتیق احمد بستوی نے فرمائی۔ تلاوت قاری مجیب اللہ عرفانی نے اور نعت مولوی عبادہ نے پیش کی۔ استقبالیہ کلمات مولانا امین الحق عبداللہ قاسمی (نائب چیئرمین: حق ایجوکیشن) نے پیش کیے جنہوں نے کہا:“ہمیں یہ اعزاز حاصل ہے کہ ہم نے ایک ایسی علمی نشست کے انعقاد کی توفیق پائی ہے جس کا مقصد ان فکری یلغاروں کا تجزیہ ہے جو آج شریعتِ اسلامی، اس کے اصول، شعائر اور تمدنی نظام کو چیلنج کر رہے ہیں۔ ان حالات میں علمی و فقہی محاذ پر صاحبِ علم افراد کا جمع ہونا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔”
اس موقع پر کل ہند اسلامک علمی اکیڈمی کے صدر مفتی اقبال احمد قاسمی نے کہا کہ شریعت کے خلاف جاری نظریاتی حملے محض بیرونی نہیں، بلکہ امت کے اندرونی اعتماد پر بھی ضرب لگا رہے ہیں۔ ان کا جواب بصیرت، دلیل اور تدبیر کے ساتھ دینا ہماری ذمہ داری ہے۔

اسی نشست میں مفتی محمد زید مظاہری (ندوۃ العلماء)، جامع العلوم پٹکاپور کے مہتمم و متولی محی الدین خسرو تاج اور مولانا عاشق الٰہی ندوی (مہتمم دارالتعلیم والصنعت) نے بھی مختصر مگر بصیرت افروز کلمات پیش کیے۔ اسلامک فقہ اکیڈمی کی جانب سے مفتی امتیاز قاسمی نے ادارے کا علمی تعارف پیش کیا اور اس کے اغراض و مقاصد پر روشنی ڈالی۔
ورکشاپ کی دوسری نشست ہفتہ کی صبح فجر کے بعد منعقد ہوئی، جس میں مولانا عتیق بستوی نے“دین اسلام اور اس کے اصول و عقائد پر ہونے والے اعتراضات”کے جواب میں عقلی و نقلی اسلوب کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ شریعت کے احکام پر اعتراضات دراصل تہذیبی تسلط کے ہتھیار ہیں، اور ان کا جواب دلیل، رواداری اور حکمت سے دینا ہوگا۔ اس نشست میں مفتی منور سلطان ندوی نے“شریعت اسلامی اور وضعی قوانین”کے تقابلی جائزے پر محاضرہ دیتے ہوئے کہا کہ اسلامی قانون فطرت پر مبنی ایک جامع ضابطہ ہے جو ہر دور میں انسانیت کی راہبری کے لائق ہے۔
تیسری نشست کی صدارت مفتی اقبال احمد قاسمی نے فرمائی۔ اس نشست میں ڈاکٹر مفتی شاہجہان ندوی نے ”شریعت کے دفاع کے اصول و ذرائع” پر مدلل گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اسلام پر ہونے والے اعتراضات کے جوابات جذباتی نہیں بلکہ سائنسی اور عقلی انداز میں ہونے چاہئیں۔ تحریر، تقریر، مکالمہ، اور سوشل میڈیا جیسے ذرائع کا استعمال وقت کی ضرورت ہے اور زبان دانی اس میدان میں کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ نبی کریم ﷺ نے صحابہ کو دیگر زبانیں سیکھنے کی اجازت دی، ہمیں بھی اسی سنت پر عمل کرتے ہوئے دنیا سے مکالمہ کے لیے خود کو تیار کرنا ہوگا۔
اسی نشست میں پروفیسر سعود عالم قاسمی (علی گڑھ مسلم یونیورسٹی) نے ”ترجیح مسالک یا تبلیغ اسلام؟” کے حساس عنوان پر خطاب کرتے ہوئے کہا کہ قابل تقلید صرف دین ہے، مسلک نہیں۔ انہوں نے فرمایا کہ امت کی توانائی کو فروعی مسائل میں ضائع کرنے کے بجائے اصل دین اور شریعت کی دعوت پر صرف کیا جانا چاہیے۔ انہوں نے یکساں سول کوڈ کے تناظر میں اسلامی شریعت کی فطری موزونیت پر بھی مدلل گفتگو کی اور کہا کہ آج کی دنیا میں جتنا زیادہ اصولی استحکام درکار ہے وہ صرف اسلامی شریعت فراہم کر سکتی ہے، کیونکہ انسانی فطرت بدلی نہیں، بس اس کے سامنے پیش آنے والے ذرائع اور وسائل بدلے ہیں۔
نظامت مفتی عبدالرشید قاسمی اور مولانا جاوید قاسمی نے خوش اسلوبی سے انجام دی، جب کہ شرکاء نے اس ورکشاپ کو ایک فکری تجدید اور دعوتی بصیرت سے بھرپور موقع قرار دیا۔ ورکشاپ کی چار مزید نشستیں بروز سنیچر و اتوار منعقد ہوں گی، جن میں عصری مالیاتی چیلنجز، ارتداد کی وجوہ، خواتین سے متعلق فکری مغالطے، اور دارالقضاء کی افادیت جیسے اہم موضوعات زیربحث آئیں گے۔