از: شفیق فیضی
شاعر مشرق علامہ اقبال، جنہیں "مصورِ مشرق” کہا جاتا ہے، ایک فلسفی، شاعر، اور بصیرت رکھنے والے مفکر تھے جن کا مقصد مسلم دنیا کو فکری جمود اور سیاسی غلامی سے آزاد کرنا تھا۔ ان کی نظم ترانۂ ملی کا ایک مشہور زمانہ شعر: "قوم مذہب سے ہے، مذہب جو نہیں، تم بھی نہیں” اقبال کے اس عقیدے کی عکاسی ہے جس میں اسلام مسلم قومیت کی روح ہے۔ یہ نظم بیسویں صدی کے آغاز میں لکھی گئی، جب ہندوستانی مسلمان نوآبادیاتی تسلط اور شناخت کے بحران کا شکار تھے۔ اقبال اس نظم کے ذریعے مسلمانوں میں اسلامی شعور کی بحالی کا مطالبہ کرتے ہیں جو اجتماعی طاقت اور ترقی کی بنیاد ہے۔
برسوں پہلے لکھا گیا علامہ اقبال کا یہ شعر آج کے اسلامی تناظر میں دیکھا جائے تو پھر سے عالم اسلام بالخصوص ہندوستانی مسلمانوں سے فکر و عمل کا تقاضا کررہا ہے، بروقت ملک کے جو حالات ہیں، بھلے ہی وہ دشمنان دین کی سازشوں کا حصہ ہیں، لیکن اس بات سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا ہے کہ ان ناگفتہ بہہ حالات کے لئے مسلمان کم ذمہ دار نہیں۔
1: قومیت اور مذہب کا رشتہ
اسلام ایسےسیکولر قومیت کے تصور کی نفی کرتا ہے جو ثقافتی شناخت کو روحانی اصولوں سے الگ کرتا ہے۔ اسلام محض ایک ذاتی عقیدہ نہیں بلکہ ایک تہذیبی روایت ہے جو مسلمانوں کو امتِ واحدہ (ایک عالمگیر برادری) میں پروتی ہے۔ مذہبی اقدار سے دوری مسلم قوم کو اس کے مقصد حیات سے محروم کر دیتی ہے۔ اسلام کا تصور قومیت یورپی قوم پرستی سے مختلف ہے جو نسلی امتیاز علاقائیت کو فروغ دیتی ہے۔ جبکہ اسلام کا قومی تصور "أمة واحدة” (ایک امت) سے ہم آہنگ ہے جہاں مشترکہ ایمان سرحدوں سے بالاتر ہوتا ہے۔ کسی عربی کو عجمی پر، گورے کو کالے پر یا دولتمند کو غریب پر بحیثیت مسلمان فوقیت نہیں۔
2: ایمان پر مبنی شناخت
اسلامی فکر کا مرکز خودی کا تصور ہے، جس کے مطابق حقیقی طاقت انسان کے اپنے خدا داد جوہر کو پہچاننے سے آتی ہے۔ آپ چاہیں تو اس کو عزت نفس کی معراج سے بھی تعبیر کرسکتے ہیں، ایک ایسی غیرت دینی جو اپنی بقا کی خاطر پوری دنیا کو قربان کرسکتی ہے، لیکن اپنی روایات اور مذہبی اصولوں سے سمجھوتہ نہ کرے۔ حاصل کلام یہ ہے کہ خودی کا یہ تصور اسلام کے بغیر بے معنی ہے۔ اسلام سے دوری مسلمانوں کو بے مقصد اور جزؤ ناکارہ بنا دیتی ہے۔
مذکورہ خیالات سے کسی کو اختلاف ہوسکتا ہے لیکن یہ نہیں بھولنا چاہئے آج عالم اسلام یا ملت اسلامیہ ہند کو جو مسائل اور چیلنجز درپیش ہیں، ان کا حل صرف اور صرف اسی راز میں پنہاں ہے کہ مسلمان اپنے وجود کو اسلام میں تلاش کریں، سیکولرزم یا اور کوئی دیگر نظریہ حیات اسلامی اقدار کو تحفظ فراہم نہیں کرسکتا، اسلام ایک معروضی ضابطۂ حیات ہے جو سبھی اقوام عالم کو مساوی مواقع مہیا کرتا ہے۔ قیام امن و انصاف میں اپنے اور پرائے کے ساتھ بھید بھاؤ نہیں کرتا، اس کے برخلاف دنیا کا کوئی بھی نظام حیات اٹھا لیجئے، وہاں آپ کو موضوعی یا خود ساختہ اصول انصاف کا قتل کرتے ضرور مل جائیں گے۔
عالمی سطح پر اسلاموفوبیا ایک کینسر کی طرح سرایت کرچکا ہے، بروقت بھارت اسلام اور مسلمان دشمنی کا مرکز بنا ہوا ہے۔ آئے دن ملک کے کسی نہ کسی گوشے سے توہین رسالت کے واقعات منظرعام پر، آے رہتے ہیں، مذہب اسلام کی شبیہ خراب کرنے کی یہ مہم حکومتی سطح پر پرموٹ کی جارہی ہے۔ جس میں روز افزوں اضافہ انتہائی تشویشناک ہے۔ مطالبے کے بعد بھی پارلیمنٹ اس کے خلاف کوئی قانون نہیں بنا رہا ہے جس کا سیدھا مطلب ہے کہ حکومت اس طرح کے واقعات پر قدغن نہیں لگانا چاہتی۔
دنیا کا یہی غیرمعروضی اور خود ساختہ نظام عمل عالمی امن عامہ کے لئے سب سے بڑا خطرہ ثابت ہورہا ہے۔ اظہار رائے کی آزادی کے نام پر جو طوفان بدتمیزی مچی ہے، یہ اسی موضوعی ضابطۂ زندگی کی پیداوار ہے، سماج کا کوئی بھی بدقماش و بدکردار انسان اپنی آوارگی کے چلتے کسی بھی عظیم ہستی پردشنام طرازی کرکے عالمی امن عامہ کے نقض سبب بن جاتا ہے۔
حکومت اسلاموفوبیا کے خلاف ایکشن نہیں لینا چاہتی ہے اس میں اس کا سیاسی مفاد وابستہ ہے لیکن مسلمانوں کا اپنا رویہ اس تعلق سے انتہائی شرمناک ہے، جس اسلام اور بانئی اسلام کے نام پر ہمارا وجود منحصر ہے افسوس ہم اس کے ناموس کی حفاظت نہیں کرپا رہے ہیں، ایسا بھی نہیں ہے کہ ناموس رسالت کا تحفظ ممکن ہی نہیں، بالکل توہین رسالت کو روکا جا سکتا ہے، لیکن اس کے لئے سب سے پہلے ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ مسلمانوں کا وجود مذہب اور اسلامی اقدار پر مبنی ہے، اسلام یا بانئی اسلام کی ناموس کے بغیر مسلمانوں کا اپنا کوئی وجود نہیں۔
اگر یہ نظریہ پروان چڑھ پائے تو اسلام اور مسلمانوں دونوں سرخرو ہوسکتے ہیں، اس کے برعکس اگر دلوں میں ناموس رسالت کی خاطرمر مٹنے کا جذبہ نہ ہو تو یہ لکھ کر رکھ لیجئے کہ آئندہ ایک نسل کے بعد ہی ہندوستان میں نام کے مسلمان تو بچیں گے، لیکن ایمان دلوں سے ایسے نکل چکا ہوگا جیسے آٹے سے بال نکل جاتا ہے۔
جن اہل علم اور صاحب ثروت کو لگتا ہے ان کا علم اور ان کی دولت ان کے لئے ڈھال کا کام کرے گی، انہیں اس زعم باطل سے وقت رہتے ہی باہر نکل جانا چاہئے، چونکہ آپ کا علم اور دولت کے ذرائع بھی انہیں اسلام پسندوں پر مبنی ہیں جن کے دین و ایمان کی آپ کو قدرے بھی فکر نہیں، سوچئے کہ قوم نہ ہو قیادت کس کی ہوگی، مقتدی نہ ہوں امامت کس کی کریں گے، مرید ہی ختم ہوجائیں تو پیر کون رہ جائے گا؟
فی الحال ناموس رسالت کے تئیں ہماری سرد مہری بتارہی ہے کہ ہم احساس خودی اور غیرت ایمانی دونوں سے ہاتھ دھو چکے ہیں، نہ ہمارے اندر خوف خدا رہا نہ ہی شرم نبی، ہم ہر اعتبار سے کفر کی تابعداری میں اپنی اس جان کے لئے امان ڈھونڈ ھ رہے ہیں، جو ناپائیدار ہے، یہ جانتے ہوئے بھی کہ زندگی اور موت کا حقیقی مالک اللہ ہے، ہم کفر کی آغوش میں پناہ متلاشی ہیں۔ ایک ایسے نظام حیات میں ہم زندگی تلاش رہے ہیں، جس کا مقصد ہی دنیا سے اسلام اور مسلمانوں کا خاتمہ کرنا ہے۔
مسلمان بحیثیت ایک قوم اسی صورت باقی رہ سکتے ہیں جب ان کے اندر مذہب کے تعلق سے ایمانداری اور خلوص موجودہو۔ کوئی قوم اپنی روایات اور مذہبی شناخت سے دست بردار ہوکر نہ تو دنیا میں ترقی کر سکتی ہے نہ ہی آخرت میں سرخرو، قوم اجتماعی اثاثے کا نام ہے، جس میں مذہبی اصول اور اپنے اسلاف کی ناموس پر خودی کو مٹانا حقیقی زندگی کہلاتا ہے۔ آج ہم بھلے طبی اعتبار سے زندہ ہیں، لیکن روحانی اور مذہبی اعتبار سے ہم سڑی ہوئی لاش میں تبدیل ہوچکے ہیں۔