By using this site, you agree to the Privacy Policy and Terms of Us
Accept
NewsG24UrduNewsG24UrduNewsG24Urdu
  • سرورق
  • آج کل
  • سیاست
  • عالمی خبریں
  • سپورٹ کریں
  • Hindi
Search
  • اتصل
  • مقالات
  • شكوى
  • يعلن
© NewsG24 Urdu. All Rights Reserved.
Reading: معراج مصطفیٰ کے حقائق اور مشاہدات
Share
Notification Show More
Font ResizerAa
NewsG24UrduNewsG24Urdu
Font ResizerAa
  • سرورق
  • آج کل
  • سیاست
  • عالمی خبریں
  • سپورٹ کریں
  • Hindi
Search
  • سرورق
  • آج کل
  • سیاست
  • عالمی خبریں
  • سپورٹ کریں
  • Hindi
Have an existing account? Sign In
Follow US
NewsG24Urdu > Blog > مذہبیات > معراج مصطفیٰ کے حقائق اور مشاہدات
مذہبیاتمضامین

معراج مصطفیٰ کے حقائق اور مشاہدات

Last updated: جنوری 24, 2025 7:35 صبح
mohdshafiquefaizi 5 مہینے ago
معراج مصطفیٰ کے حقائق
معراج مصطفیٰ کے حقائق اور مشاہدات
SHARE

از۔ مولانا محمد قمرانجم قادری فیضی

مشمولات
واقعۂ معراج النبی صلی اللہ علیہ وسلم:انسانی تاریخ کا سب سے لمبا سفر:معراج مصطفیٰ کا مقصد:واقعۂ معراج کی مختصر تفصیل:نماز کی فرضیت:نماز کی فرضیت کے علاوہ دیگر دو انعام:معراج میں دیدار الہی:قریش کی تکذیب اور ان پر حجت قائم ہونا:سفر معراج کے بعض مشاہداتکچھ لوگ اپنے سینوں کو ناخنوں سے چھیل رہے تھے:سود خوروں کی بدحالی:کچھ لوگوں کے سر پتھروں سے کچلے جارہے تھے:زکاۃ نہ دینے والوں کی بدحالی:سڑا ہوا گوشت کھانے والے لوگ:سدرۃ المنتہی کیا ہے؟

ایڈیٹر پیام شعیب الاولیاء براؤں شریف ضلع سدھارتھ نگر

اسلامی سال کا ساتواں مہینہ رجب المرجب ہے۔ رجب اُن چار مہینوں میں سے ایک ہے جنہیں اللہ تبارک و تعالیٰ نے حرمت والے مہینے قرار دیا ہے: اللہ کے نزدیک مہینوں کی تعداد بارہ مہینے ہیں، جو اللہ کی کتاب (یعنی لوح محفوظ ) کے مطابق اُس دن سے نافذ ہیں جس دن اللہ نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا۔ ان (بارہ مہینوں) میں سے چار حرمت والے ہیں۔(سورۃ التوبہ 36)

ان چار مہینوں کی تحدید قرآن کریم میں نہیں ہے بلکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو بیان فرمایا ہے اوروہ یہ ہیں : ذوالقعدہ، ذوالحجہ، محرم الحرام اور رجب المرجب۔ معلوم ہوا کہ حدیث نبوی کے بغیر قرآن کریم نہیں سمجھا جاسکتا ہے۔ ان چار مہینوں کو اشہر حرم کہا جاتا ہے۔ ان مہینوں کو حرمت والے مہینے اس لئے کہتے ہیں کہ ان میں ہر ایسے کام جو فتنہ وفساد ، قتل وغارت گری اور امن وسکون کی خرابی کا باعث ہو سے منع فرمایا گیا ہے، اگرچہ لڑائی جھگڑا سال کے دیگر مہینوں میں بھی حرام ہے ، مگر اِن چار مہینوں میں لڑائی جھگڑا کرنے سے خاص طور پر منع کیا گیا ہے۔ ان چار مہینوں کی حرمت وعظمت پہلی شریعتوں میں بھی مسلّم رہی ہے حتی کہ زمانہ جاہلیت میں بھی ان چار مہینوں کا احترام کیا جاتا تھا۔

- Advertisement -
Ad imageAd image

رجب کا مہینہ شروع ہونے پر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ سے یہ دعا مانگا کرتے تھے۔ اے اللہ! رجب اور شعبان کے مہینوں میں ہمیں برکت عطا فرما اور ماہ رمضان تک ہمیں پہونچا۔ (مسند احمد، بزار، طبرانی، بیہقی) لہذا ماہِ رجب کے شروع ہونے پر ہم یہ دعا یا اس مفہوم پر مشتمل دعا مانگ سکتے ہیں۔ اس دعا سے اندازہ ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک رمضان کی کتنی اہمیت تھی کہ ماہِ رمضان کی عبادت کو حاصل کرنے کے لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان سے دو ماہ قبل دعاؤں کا سلسلہ شروع فرما دیتے تھے۔ ماہِ رجب کو بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعائے برکت حاصل ہوئی ، جس سے ماہِ رجب کا کسی حد تک مبارک ہونا ثابت ہوتا ہے۔

واقعۂ معراج النبی صلی اللہ علیہ وسلم:

اس واقعہ کی تاریخ اور سال کے متعلق ‘ مؤرخین اور اہل سیر کی رائے مختلف ہیں، ان میں سے ایک رائے یہ ہے کہ نبوت کے بارہویں سال 27 رجب کو 51 سال 5 مہینہ کی عمر میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو معراج ہوئی۔ اسراء کے معنی رات کو لے جانے کے ہیں۔ مسجد حرام (مکہ مکرمہ) سے مسجد اقصیٰ کا سفر جس کا تذکرہ سورۂ بنی اسرائیل میں کیا گیا ہے، اس کو اسراء کہتے ہیں۔ اور یہاں سے جو سفر آسمانوں کی طرف ہوا اس کا نام معراج ہے، معراج عروج سے نکلا ہے جس کے معنی چڑھنے کے ہیں ۔حدیث میں ’عرج بی‘ یعنی مجھ کو اوپر چڑھایا گیا کا لفظ استعمال ہوا ہے ،اس لئے اس سفر کا نام معراج ہوگیا۔ اس مقدس واقعہ کو اسراء اور معراج دونوں ناموں سے یاد کیا جاتا ہے۔

اس واقعہ کا ذکر سورۂ نجم کی آیات میں بھی ہے: پھر وہ قریب آیا اور جھک پڑا، یہاں تک کہ وہ دو کمانوں کے فاصلے کے برابر قریب آگیا، بلکہ اس سے بھی زیادہ نزدیک، اس طرح اللہ کو اپنے بندے پر جو وحی نازل فرمانی تھی، وہ نازل فرمائی۔

سورۃ النجم کی آیات 13-18 میں وضاحت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے (اس موقع پر) بڑی بڑی نشانیاں ملاحظہ فرمائیں: اور حقیقت یہ ہے انہوں نے اس (فرشتے) کو ایک اور مرتبہ دیکھا ہے۔ اس بیر کے درخت کے پاس جس کا نام سدرۃ المنتہی ہے، اسی کے پاس جنت المأویٰ ہے، اس وقت اس بیر کے درخت پر وہ چیزیں چھائی ہوئی تھیں جو بھی اس پر چھائی ہوئی تھیں۔ رسول پاک صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی آنکھ نہ تو چکرائی اور نہ حد سے آگے بڑھی، سچ تو یہ ہے کہ آپ نے اپنے پرودرگار کی بڑی بڑی نشانیوں میں سے بہت کچھ دیکھا ہے۔

احادیث متواترہ سے ثابت ہے، یعنی صحابہ، تابعین اور تبع تابعین کی ایک بڑی تعداد سے معراج کے واقعہ سے متعلق احادیث مروی ہیں۔

- Advertisement -

انسانی تاریخ کا سب سے لمبا سفر:

قرآن کریم اور احادیث متواترہ سے ثابت ہے کہ اسراء ومعراج کا تمام سفر صرف روحانی نہیں بلکہ جسمانی تھا، یعنی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ سفر کوئی خواب نہیں تھا بلکہ ایک جسمانی سفر اور عینی مشاہدہ تھا۔ یہ ایک معجزہ تھا کہ مختلف مراحل سے گزرکر اتنا بڑا سفر اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت سے صرف رات کے ایک حصہ میں مکمل کردیا۔ اللہ تعالیٰ جو اس پوری کائنات کا پیدا کرنے والا ہے، اس کے لئے کوئی بھی کام مشکل نہیں ہے،کیونکہ وہ تو قادر مطلق ہے،جو چاہتا ہے کرتا ہے، اس کے تو ارادہ کرنے پر چیز کا وجود ہوجاتا ہے۔ معراج کا واقعہ پوری انسانی تاریخ کا ایک ایسا عظیم، مبارک اور بے نظیر معجزہ ہے جس کی مثال تاریخ پیش کرنے سے قاصر ہے۔ خالق کائنات نے اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کو دعوت دے کر اپنا مہمان بنانے کا وہ شرف عظیم عطا فرمایا جو نہ کسی انسان کو کبھی حاصل ہوا ہے اور نہ کسی مقرب ترین فرشتے کو۔

معراج مصطفیٰ کا مقصد:

واقعہ معراج کے مقاصد میں جو سب سے مختصر اور عظیم بات قرآن کریم (سورہ بنی اسرائیل) میں ذکر کی گئی ہے وہ یہ ہے کہ ہم (اللہ تعالیٰ) نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی کچھ نشانیاں دکھلائیں، اس کے مقاصد میں سے ایک اہم مقصد اپنے حبیب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو وہ عظیم الشان مقام ومرتبہ دینا ہے جو کسی بھی بشر حتی کہ کسی مقرب ترین فرشتہ کو نہیں ملا ہے اور نہ ملے گا۔ نیز اس کے مقاصد میں امت مسلمہ کو یہ پیغام دینا ہے کہ نماز ایسا مہتم بالشان عمل اور عظیم عبادت ہے کہ اس کی فرضیت کا اعلان زمین پر نہیں بلکہ ساتوں آسمانوں کے اوپر بلند و اعلیٰ مقام پر معراج کی رات میں ہوا۔ نیز اس کا حکم حضرت جبرئیل علیہ السلام کے ذریعہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تک نہیں پہنچا بلکہ اللہ تعالیٰ نے فرضیتِ نماز کا تحفہ بذاتِ خود اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کو عطا فرمایا۔ نماز اللہ جلّ شانہ سے تعلق قائم کرنے اور اپنی ضرورتوں اور حاجتوں کو مانگنے کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔ نماز میں اللہ تبارک وتعالیٰ سے مناجات ہوتی ہے۔

واقعۂ معراج کی مختصر تفصیل:

اس واقعہ کی مختصر تفصیل یہ ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سونے کا طشت لایا گیا جو حکمت اور ایمان سے پُر تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا سینہ چاک کیا گیا، پھر اسے زمزم کے پانی سے دھویا گیا، پھر اسے حکمت اور ایمان سے بھر دیا گیا اور پھر بجلی کی رفتار سے زیادہ تیز چلنے والی ایک سواری یعنی براق لایا گیاجو لمبا سفید رنگ کا تھا، اس کاقد گدھے سے بڑا اور خچر سے چھوٹا تھا وہ اپنا قدم وہاں رکھتا تھا جہاں تک اس کی نظر پڑتی تھی۔ اس پر سوار کرکے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو بیت المقدس لے جایا گیا اور وہاں تمام انبیاء کرام نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتداء میں نماز پڑھی۔ پھر آسمانوں کی طرف لے جایا گیا۔ پہلے آسمان پر حضرت آدم علیہ السلام ، دوسرے آسمان پر حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور حضرت یحیےٰ علیہ السلام، تیسرے آسمان پر حضرت یوسف علیہ السلام، چوتھے آسمان پر حضرت ادریس علیہ السلام، پانچویں آسمان پر حضرت ہارون علیہ السلام، چھٹے آسمان پر حضرت موسیٰ علیہ السلام اور ساتویں آسمان پر حضرت ابراہیم علیہ السلام سے ملاقات ہوئی۔ اس کے بعد البیت المعمور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کردیا گیا جہاں روزانہ ستر ہزار فرشتے اللہ کی عبادت کے لئے داخل ہوتے ہیں جو دوبارہ اس میں لوٹ کر نہیں آتے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سدرۃ المنتہی تک لے جایا گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا کہ اس کے پتے اتنے بڑے ہیں جیسے ہاتھی کے کان ہوں اور اس کے پھل اتنے بڑے بڑے ہیں جیسے مٹکے ہوں۔ جب سدرۃ المنتہی کو اللہ کے حکم سے ڈھانکنے والی چیزوں نے ڈھانک لیا تو اس کا حال بدل گیا، اللہ کی کسی بھی مخلوق میں اتنی طاقت نہیں کہ اس کے حسن کو بیان کرسکے۔ سدرۃ المنتہی کی جڑ میں چار نہریں نظر آئیں، دو باطنی نہریں اور دو ظاہری نہریں۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دریافت کرنے پر حضرت جبرئیل علیہ السلام نے بتایا کہ باطنی دو نہریں جنت کی نہریں ہیں اور ظاہری دو نہریں فرات اور نیل ہیں (فرات عراق اور نیل مصر میں ہے)۔

- Advertisement -

نماز کی فرضیت:

اس وقت اللہ تبارک وتعالیٰ نے ان چیزوں کی وحی فرمائی جن کی وحی اس وقت فرمانا تھا اور پچاس نمازیں فرض کیں۔ واپسی پر حضرت موسیٰ علیہ السلام سے ملاقات ہوئی ۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے کہنے پر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم چند مرتبہ اللہ تعالیٰ کے دربار میں حاضر ہوئے اور نماز کی تخفیف کی درخواست کی۔ ہر مرتبہ پانچ نمازیں معاف کردی گئیں یہاں تک کہ صرف پانچ نمازیں رہ گئیں۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اس پر بھی مزید تخفیف کی بات کہی، لیکن اس کے بعد حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا کہ مجھے اس سے زیادہ تخفیف کا سوال کرنے میں شرم محسوس ہوتی ہے اور میں اللہ کے اس حکم کو تسلیم کرتا ہوں۔ اس پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ ندا دی گئی : میرے پاس بات بدلی نہیں جاتی ہے یعنی میں نے اپنے فریضہ کا حکم باقی رکھا اور اپنے بندوں سے تخفیف کردی اور میں ایک نیکی کا بدلہ دس بنا کر دیتا ہوں۔ غرضیکہ ادا کرنے میں پانچ ہیں اور ثواب میں پچاس ہی ہیں۔

نماز کی فرضیت کے علاوہ دیگر دو انعام:

اس موقعہ پر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ سے انسان کا رشتہ جوڑنے کا سب سے اہم ذریعہ یعنی نماز کی فرضیت کا تحفہ ملا اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنی امت کی فکر اور اللہ کے فضل و کرم کی وجہ سے پانچ نماز کی ادائیگی پر پچاس نمازوں کا ثواب دیا جائے گا۔

سورۃ البقرہ کی آخری آیت (آمَنَ الرَّسُولُ سے لے کر آخر تک) عنایت فرمائی گئی۔

اس قانون کا اعلان کیا گیا کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے امیتوں کے شرک کے علاوہ تمام گناہوں کی معافی ممکن ہے یعنی کبیرہ گناہوں کی وجہ سے ہمیشہ عذاب میں نہیں رہیں گے بلکہ توبہ سے معاف ہوجائیں گے یا عذاب بھگت کر چھٹکارا مل جائے گا، البتہ کافر اور مشرک ہمیشہ جہنم میں رہیں گے۔

معراج میں دیدار الہی:

زمانۂ قدیم سے اختلاف چلا آرہا ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم شب معراج میں دیدار خداوندی سے مشرف ہوئے یا نہیں اور اگر رؤیت ہوئی تو وہ رؤیت بصری تھی یا رؤیت قلبی تھی، البتہ ہمارے لئے اتنا مان لینا انشاء اللہ کافی ہے کہ یہ واقعہ برحق ہے، یہ واقعہ رات کے صرف ایک حصہ میں ہوا، نیز بیداری کی حالت میں ہوا ہے اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ایک بڑا معجزہ ہے۔ اور حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے جاگتی آنکھوں سے اللہ تعالیٰ کا دیدار کیا ۔

قریش کی تکذیب اور ان پر حجت قائم ہونا:

رات کے صرف ایک حصہ میں مکہ مکرمہ سے بیت المقدس جانا، انبیاء کرام کی امامت میں وہاں نماز پڑھنا،پھر وہاں سے آسمانوں تک تشریف لے جانا، انبیاء کرام سے ملاقات اور پھر اللہ جل شانہ کی دربار میں حاضری، جنت و دوزخ کو دیکھنا، مکہ مکرمہ تک واپس آنا اور واپسی پر قریش کے ایک تجارتی قافلہ سے ملاقات ہونا جو ملک شام سے واپس آرہا تھا۔ جب حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے صبح کو معراج کا واقعہ بیان کیا تو قریش تعجب کرنے لگے اور جھٹلانے لگے اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس گئے۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اگر انہوں نے یہ بات کہی ہے تو سچ فرمایا ہے۔ اس پر قریش کے لوگ کہنے لگے کہ کیا تم اس بات کی بھی تصدیق کرتے ہو؟ انہوں نے فرمایا کہ میں تو اس سے بھی زیادہ عجیب باتوں کی تصدیق کرتا ہوں اور وہ یہ کہ آسمانوں سے آپ کے پاس خبرآتی ہے۔ اسی وجہ سے ان کا لقب صدیق پڑ گیا۔ اس کے بعد جب قریش مکہ کی جانب سے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے بیت المقدس کے احوال دریافت کئے گئے تو اللہ تبارک وتعالیٰ نے بیت المقدس کو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے روشن فرمادیا، اُس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم حطیم میں تشریف فرما تھے۔ قریش مکہ سوال کرتے جارہے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم جواب دیتے جارہے تھے۔

سفر معراج کے بعض مشاہدات

اس اہم و عظیم سفر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جنت و دوزخ کے مشاہدہ کے ساتھ مختلف گناہگاروں کے احوال بھی دکھائے گئے جن میں سے بعض گناہگاروں کے احوال اس جذبہ سے تحریر کر رہا ہوں کہ ان گناہوں سے ہم خود بھی بچیں اور دوسروں کو بھی بچنے کی ترغیب دیں۔

کچھ لوگ اپنے سینوں کو ناخنوں سے چھیل رہے تھے:

حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جس رات مجھے معراج کرائی گئی میں ایسے لوگوں پر گزرا جن کے ناخون تانبے کے تھے اور وہ اپنے چہروں اور سینوں کو چھیل رہے تھے۔میں نے جبرئیل علیہ السلام سے دریافت کیا کہ یہ کون لوگ ہیں؟ انہوں نے جواب دیا کہ وہ لوگ ہیں جو لوگوں کے گوشت کھاتے ہیں( یعنی ان کی غیبت کرتے ہیں) اور ان کی بے آبروئی کرنے میں پڑے رہتے ہیں۔ (ابوداؤد)

سود خوروں کی بدحالی:

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جس رات مجھے سیر کرائی گئی میں ایسے لوگوں پر بھی گزرا جن کے پیٹ اتنے بڑے بڑے تھے جیسے (انسانوں کے رہنے کے) گھر ہوتے ہیں ان میں سانپ تھے جو باہر سے ان کے پیٹوں میں نظر آرہے تھے۔ میں نے کہا کہ اے جبرئیل ! یہ کون لوگ ہیں؟ انہوں نے کہا یہ سود کھانے والے ہیں۔ (مشکوٰۃ المصابیح)

کچھ لوگوں کے سر پتھروں سے کچلے جارہے تھے:

آپ کا گزر ایسے لوگوں کے پاس سے بھی ہوا جن کے سر پتھروں سے کچلے جارہے تھے، کچل جانے کے بعد پھر ویسے ہی ہوجاتے تھے جیسے پہلے تھے۔ اسی طرح یہ سلسلہ جاری تھا، ختم نہیں ہورہا تھا۔ آپ نے پوچھا یہ کون لوگ ہیں؟ جبرئیل علیہ السلام نے کہا کہ یہ لوگ نماز میں کاہلی کرنے والے ہیں ۔

زکاۃ نہ دینے والوں کی بدحالی:

آپ کا گزر ایسے لوگوں کے پاس سے بھی ہوا جن کی شرمگاہوں پر آگے اور پیچھے چیتھڑے لپٹے ہوئے ہیں اور اونٹ و بیل کی طرح چَرتے ہیں اور کانٹے دار و خبیث درخت اور جہنم کے پتھر کھا رہے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا یہ کون لوگ ہیں؟ جبرئیل علیہ السلام نے کہا کہ یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے مالوں کی زکاۃ ادا نہیں کرتے ہیں۔

سڑا ہوا گوشت کھانے والے لوگ:

آپ کا گزر ایسے لوگوں کے پاس سے بھی ہوا جن کے سامنے ایک ہانڈی میں پکا ہوا گوشت ہے اور ایک ہانڈی میں کچا اور سڑا ہوا گوشت رکھا ہے، یہ لوگ سڑا ہوا گوشت کھا رہے ہیں اور پکا ہوا گوشت نہیں کھارہے ہیں، آپ نے دریافت کیا یہ کون لوگ ہیں؟ جبرئیل علیہ السلام نے کہا کہ یہ وہ لوگ ہیں جن کے پاس حلال اور طیب عورت موجود ہے مگر وہ زانیہ اور فاحشہ عورت کے ساتھ شب باشی کرتے ہیں اور صبح تک اسی کے ساتھ رہتے ہیں اور وہ عورتیں ہیں جو حلال اور طیب شوہر کو چھوڑ کر کسی زانی اور بدکار شخص کے ساتھ رات گزارتی ہیں۔

سدرۃ المنتہی کیا ہے؟

احادیث میں سدرۃالمنتہی اور السدرۃ المنتہی دونوں طرح استعمال ہوا ہے۔ قرآن کریم میں سدرۃالمنتہی استعمال ہوا ہے۔ سدرۃ کے معنی بیر کے ہیں اور منتہی کے معنی انتہا ہونے کی جگہ کے ہیں۔ اس درخت کا یہ نام رکھنے کی وجہ صحیح مسلم میں اس طرح ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اوپر سے جو احکام نازل ہوتے ہیں وہ اسی پر منتہی ہوجاتے ہیں اور جوبندوں کے اعمال نیچے سے اوپر جاتے ہیں وہ وہاں پر ٹھہر جاتے ہیں، یعنی آنے والے احکام پہلے وہاں آتے ہیں پھر وہاں سے نازل ہوتے ہیں اور نیچے سے جانے والے جو اعمال ہیں وہ وہاں ٹھہر جاتے ہیں پھر اوپر اٹھائے جاتے ہیں.

شب اسری کے دولہا پہ دائم درود
نوشہ بزم جنت پہ لاکھوں سلام

1Like
0Dislike
100% LikesVS
0% Dislikes

You Might Also Like

مصنف و ادیب مفتی شعیب رضا نظامی فیضی کو "امام احمد رضا ایوارڈ” تفویض

قربانی خلوص و تقویٰ کا مظہر: مولانا شان محمد جامعی

مخلص نہیں کوئی بھی اردو زبان کا؟

شریعت کے خلاف فکری یلغار کے جواب میں فقہی و فکری ورکشاپ کا آغاز

نفرتی ایجنڈے پر مجرمانہ خاموشی، مسلمانوں کی جان اتنی سستی کیوں؟

TAGGED:شب اسریٰشب معراجمسجد اقصیٰمسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تکمعراج مصطفیٰ
Share This Article
Facebook Twitter Whatsapp Whatsapp LinkedIn Telegram Email Copy Link Print
Previous Article عظمت صحابہ و اصلاح معاشرہ کانفرنس عظمت صحابہ و اصلاح معاشرہ کانفرنس اختتام پذیر
Next Article مولانا ابو الکلام نے آزادی کے ساتھ آئین سازی میں اہم کردار ادا کیا
1 Review
  • ملک و ملت کی تعمیر و ترقی جمعیۃ کی روایت: حکیم الدین قاسمی - NewsG24Urdu says:

    […] تیاری کے سلسلے میں جمعیۃ علماء وسطی زون کے 28 اضلاع کے صدور اور نظماء کی ایک اہم آن لائن میٹنگ زوم پر منعقد ہوئی جس […]

    جواب دیں

Leave a review جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Please select a rating!

محمد ذیشان اور ابوشحمہ انصاری نے دی عیدالاضحی کی مبارکباد
بزمِ مدنی کے زیرِ اہتمام یادِ مائل میں سجی چراغوں جیسی شعری شام
مصنف و ادیب مفتی شعیب رضا نظامی فیضی کو "امام احمد رضا ایوارڈ” تفویض
قربانی خلوص و تقویٰ کا مظہر: مولانا شان محمد جامعی
مخلص نہیں کوئی بھی اردو زبان کا؟

Advertise

ہمارا موبائل اپلیکیشن ڈاؤن لوڈ کریں

NewsG24بھارت میں پروپیگنڈہ خبروں کے خلاف ایک مہم ہے، جو انصاف اور سچائی پر یقین رکھتی ہے، آپ کی محبت اور پیار ہماری طاقت ہے!
© NewsG24 Urdu. All Rights Reserved.
  • About Us
  • TERMS AND CONDITIONS
  • Refund policy
  • سپورٹ کریں
  • Privacy Policy
  • پیام شعیب الاولیاء
  • Contact us
Welcome Back!

Sign in to your account

Lost your password?