شہری جمعیۃ علماء کانپور کے زیر اہتمام ’تحفظ آئین ہند اور ہمارے اسلاف کی قربانیاں‘عشرے کے چھٹے پروگرام سے مولانا عبد القادر قاسمی کا خطاب
کانپور: (محمد عثمان قریشی)ملک کی خاطر جتنا خون ہم نے دیا، اتنا پسینہ بھی کسی اور نے نہیں بہایا ان خیالات کا اظہار "تحفظ آئین ہند اور ہمارے اسلاف کی قربانیاں” پروگرام کے تحت کیا گیا نیز بتایا گیا کہ 26 جنوری یوم جمہوریہ اور 15 اگست یعنی یوم آزادی کے موقع پر پورا دن ملکی ترانوں کی دھنوں اور خوشی کی شہنائیاں بجانے میں صرف کیا جاتا ہے، یہ خوشیاں بعض وہ لوگ مناتے ہیں جنہیں آزادی پھولوں کے گلدستے کی شکل میں ملی ہے۔ انہیں نہ اپنے بڑوں کی قربانیوں کا احساس ہے نہ ان کی عظیم خدمات سے واقفیت ہے، نہ یہ فکر ہے کہ آزادی جس مقصد سے حاصل کی گئی ہے وہ پوری طرح حاصل ہو سکا ہے یا نہیں؟ وہ تو بس ایک رسمی خوشی سے سرشار ہیں جس نے انہیں اپنے ماضی اور مستقبل سے بے خبر کر دیا ہے حالانکہ اقوام و ملل کی تاریخ بار بار تجربات کی روشنی میں یہ بتا چکی ہے کہ جو قوم اپنے ماضی سے کٹ جاتی ہے وہ کبھی بھی مستقبل میں کامیابی کے نقوش ثبت نہیں کر پاتی۔ کامیابی کے منصوبے ہمیشہ ماضی کی تاریخ سامنے رکھ کر ہی بنائے جاتے ہیں اور جب ماضی کو بھلا دیا جائے یا تاریخ کو مسخ کر دیا جائے اس سے دانستہ تجاہل برتا جائے تو پھر اخلاقی زوال قوم کا مقدر بن جاتا ہے۔ ہمارے ملک عزیز ہندوستان میں آزادی کے بعد ملک کی سب سے بڑی اقلیت مسلمانوں سے جو بتدریج امتیاز برتا گیا اور انہیں قومی دھارے سے الگ کرنے کی جو مسلسل کوششیں کی گئیں اور کی جارہی ہیں وہ اسی اخلاقی زوال کا ایک ادنی سا مظاہرہ ہیں احسان فراموشی کی اس سے بدترین مثال کیا ہو گی کہ آزادی کے لئے فضا جنھوں نے ہموار کی اور مردہ دلوں میں روح جنھوں نے پھونکی، خواب گراں میں مست لوگوں کو جنھوں نے جھنجھوڑ کر آزادی کی راہ کا راہ رو بنایا۔ اور برطانوی استعمار کے مقابلہ میں جنھوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔ پھانسی کے پھندوں کو چوما اور سینوں پر گولیاں کھا کر شہیدانِ قوم و ملت کی فہرست میں اپنا نام سنہرے حروف سے نقش نقش کرایا، آج انہیں علماء کی خدمات کو ملکی تاریخ سے حرف غلط کی طرح مٹا دیا گیا اور وہ مسافر جو اس کفن بر دوش قافلہ میں سر راہ آکر شامل ہو گئے تھے، ان کو قافلہ کی قیادت کا تاج پہنا دیا گیا۔ گذشتہ پچاس سالوں میں ملک کی نسل بدل چکی ہے۔ پرانی عمر کے لوگ پابہ رکاب ہیں اور نئی عمر والے زمام اقتدار سنبھال رہے ہیں، اس نئی نسل کی پرورش ان اسکولوں میں ہوئی ہے جہاں نصابی کتابیں خاص ذہنیت کے ماتحت لکھ کر پڑھائی جاتی ہیں۔ ان کتابوں میں تاریخ کے متعلق جو سبق پڑھایا گیا ہے وہی آج نئی نسل کا منتہائے علم ہے جن چند ناموں کو وہ پچاس سال سے رشتے آرہے ہیں صرف انھیں ہی وہ ملک کا نجات دہندہ سمجھتے ہیں اور ان گنے چنے ناموں کے علاوہ کسی اور کے بارے میں نہ انہیں معلومات ہیں اور نہ ہی واقفیت حاصل کرنے کا جذبہ۔مذکورہ خطاب مولانا عبد القادر قاسمی ناظم تعلیمات جامعہ عربیہ اشاعت العلوم قلی بازار کانپور نے یوم جمہوریہ کے پیش نظر اپنی نسل نو کو آزادیئ ملک میں ہمارے اسلاف کی قربانیوں سے روشناس کرانے کیلئے مولانا ابوبکر ہادی قاسمی کے زیر نگرانی شہری جمعیۃ علماء کانپور کے زیر اہتمام و قاضیئ شہر کانپور حافظ عبد القدوس ہادی نائب صدر جمعیۃ علماء اتر پردیش کے زیر سرپرستی میں منعقدہ ’تحفظ آئین ہند اور ہمارے اسلاف کی قربانیاں عشرے‘ کے چھٹا تقریب بمقام مسجد سبزی منڈی، بادشاہی ناکہ کانپور میں بعد نماز ظہر کیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہمیں دوسروں پر نہ زیادہ افسوس نہ ان سے گلہ کرنے کا زیادہ موقع۔ مگر خود ہمارا اپنے اسلاف کے ساتھ کیا معاملہ ہے؟ اور ہمارا رشتہ اپنے شاندار ماضی سے کتنا مضبوط ہے؟ یہ سوچنے کی بات ہے۔ آج مسلم اسکولوں میں آزادی کے نام پر جو پروگرام ہوتے ہیں ان میں بھی بس وہی تاریخ دہرائی جاتی ہے۔ جو پچاس سالوں میں از سر نو مدوّن کی گئی ہے۔ ہم خود اپنی موجودہ نسل کو علماء اسلام کے کارناموں سے روشناس نہیں کراتے۔ حالانکہ ضرورت ہے کہ اس فرقہ وارانہ ماحول میں اپنے ماضی سے پوری واقفیت ہو اور ہم پورے شرح صدر کے ساتھ یہ کہہ سکیں کہ مادر وطن کے ذرہ ذرہ پر ہمارا بھی اتنا ہی حق ہے جتنا اور کسی قوم کا، بلکہ اور آگے بڑھ کر تاریخ کے حوالے سے کہیں کہ ”ہم نے اس ملک کی خاطر جتنا خون ہم نے دیا، اتنا پسینہ بھی کسی اور نے نہیں بہایا۔“ آج ہمیں اپنی نئی نسل کو یہ بتانا ہے کہ تحریک آزادی کے ابتدائی سو سالوں میں جدو جہد کے میدان میں قائدانہ کردار صرف علماء ہی ادا کرتے رہے بعد میں دوسرے لوگ بھی سامنے آئے مگر علماء نے اپنا امتیازی کردار آزادی کی صبح تک جاری رکھا۔ تقریب کی صدارت حافظ محمد اسلم امام مسجدسبزی منڈی بادشاہی ناکہ نے۔ اس موقع پر مصلیان مسجد و عامۃ المسلمین موجود رہے۔
[…] ہم؟ہم نے وقت کو ضائع کیا علم کو نظر انداز کیا اور خود کو غفلت کی زنجیروں میں جکڑ […]