نئی دہلی، آج، 20 مئی 2025 کو، سپریم کورٹ نے وقف قانون، 2025 کے آئینی جواز کو چیلنج کرنے والی درخواستوں پر تین گھنٹے سے زائد کی اہم سماعت کی۔ چیف جسٹس بھوشن رام کرشن گوائی اور جسٹس آگسٹین پر مشتمل دو رکنی بینچ نے اس معاملے کو تین بنیادی نکات تک محدود رکھنے کا فیصلہ کیا:
- وقف بائے یوزر
- جائیداد کی شناخت
- وقف بورڈز میں تقرریوں کے طریقہ کار
مرکزی حکومت کا موقف
- سماعت کو محدود کرنے کی درخواست: حکومت نے کہا کہ ترمیم کا مقصد وقف املاک کے انتظام کو شفاف بنانا ہے۔ انہوں نے یقین دہانی کرائی کہ وقف بائے یوزر کے تحت رجسٹرڈ املاک کو سماعت تک ڈی ناٹیفائی نہیں کیا جائے گا۔
- سیکشن 91(خ) کی وضاحت: حکومت نے واضح کیا کہ وقف املاک کا حصول صرف بورڈ کی منظوری اور مارکیٹ ویلیو کی ادائیگی کے بعد ممکن ہوگا۔ مالکانہ حقوق ریاست کو منتقل نہیں ہوں گے۔
درخواست گزاروں کے اعتراضات
سینئر وکیل کپل سبل کی قیادت میں درخواست گزاروں نے کہا:
- وقف قانون 2025 غیر آئینی ہے: یہ ایکٹ وقف املاک پر کنٹرول کا ذریعہ ہے اور مسلمانوں کے مذہبی حقوق کی خلاف ورزی کرتا ہے۔
- وقف بائے یوزر کا خاتمہ خطرناک: سبل نے خبردار کیا کہ اگر یہ شق ہٹائی گئی تو آئینی بحران پیدا ہو سکتا ہے، جیسا کہ چیف جسٹس سنجیو کھننا نے بھی گزشتہ سماعت میں اشارہ دیا تھا۔
سپریم کورٹ کا ردعمل
- عارضی رکاوٹ کے لیے مضبوط دلائل ضروری: کورٹ نے کہا کہ کسی ایکٹ کو روکنے کے لیے ٹھوس ثبوت درکار ہوں گے۔
- حکومت کی یقین دہانی کو نوٹ کیا: اگلی سماعت تک وقف بورڈز میں نئی تقرریاں نہیں ہوں گی اور وقف بائے یوزر املاک کی حیثیت برقرار رہے گی۔
- اگلی تاریخ: معاملہ 21 مئی 2025 کو دوبارہ سماعت کے لیے پیش کیا جائے گا۔
سماعت کا نتیجہ
کورٹ نے فی الحال کوئی عارضی حکم جاری نہیں کیا، لیکن دونوں فریقوں کے دلائل غور سے سنے۔ ججز نے اشارہ دیا کہ اگر درخواست گزار ٹھوس دلائل پیش کریں تو جلد فیصلہ ہو سکتا ہے۔
17 اپریل 2025 کو، کورٹ نے مرکزی حکومت کو 7 دن میں جواب دائر کرنے کا حکم دیا تھا۔ حکومت نے اپنے جوابی حلف نامے میں کہا تھا کہ یہ قانون آئینی طور پر درست ہے اور اسے ختم کرنے کی ضرورت نہیں۔
آئندہ پیش رفت
اگلی سماعت میں مرکزی حکومت اپنے دلائل کو مزید تقویت دے گی۔ کورٹ کا فیصلہ وقف املاک کے انتظام، مذہبی آزادی، اور حکومتی پالیسیوں کے درمیان توازن کے لیے اہم ہوگا۔