مولانا محمد سعد خاں ندوی کی زیرِ نظامت مرکز الاسلام، پیچ باغ کانپور میں تعزیتی اجلاس کا انعقاد
کانپور (محمد عثمان قریشی)
مدرسہ مرکز الاسلام پیچ باغ، کانپور میں ممتاز عالمِ دین حضرت مولانا ڈاکٹر نذیر احمد ندوی کی یاد میں ایک تعزیتی اجلاس منعقد ہوا، جس میں مختلف علمی و دینی شخصیات نے مرحوم کے اوصافِ حمیدہ اور خدماتِ جلیلہ پر روشنی ڈالی۔
اجلاس کی صدارت مولانا محمد سعد خاں ندوی (امام و خطیب مسجد رئیس باغ، تلک نگر) نے کی۔ اپنے خطاب میں انہوں نے کہا کہ:
“ایسے اساتذہ مدرسوں میں بہت کم نظر آتے ہیں جو بیک وقت اتنی خوبیوں کے حامل ہوں۔ ڈاکٹر نذیر احمد ندوی صاحب اتنی صفات کے باوجود نام و نمود اور شہرت سے ہمیشہ دور رہے۔ ہر طالب علم اور متعلق رکھنے والا یہی محسوس کرتا کہ مولانا ان سے سب سے زیادہ محبت کرتے ہیں۔ فراغت کے بعد وہ ہر سال عیدین پر خود فون کر کے دعائیں دیتے تھے، ایسا تو اکثر خاندان والے بھی نہیں کرتے۔ وہ واقعی جامع الکمالات شخصیت تھے۔”
ڈاکٹر ظفر احمد ندوی (پرنسپل، مدرسہ صدیقیہ ضیاء الاسلام) نے کہا کہ:
“مولانا ڈاکٹر نذیر احمد ، حضرت مولانا علی میاں ندوی کے نہایت قریبی ساتھی تھے۔ وہ چاہتے تو کسی بھی یونیورسٹی میں پروفیسر بن سکتے تھے، لکھنؤ یونیورسٹی سے خود انہیں آفر تھی جہاں سے انہوں نے ڈاکٹریٹ کیا تھا، لیکن انہوں نے دنیاوی مناصب کے بجائے ندوۃ العلماء کی خدمات کو ترجیح دی۔ پیسوں کے پیچھے نہیں بھاگے بلکہ خود خاک میں مل کر دوسروں کو گل و گلزار بنا دیا۔”
مولانا توحید عالم ندوی (استاذ، مدرسہ صدیقیہ) نے اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے کہا:
“میں کئی سال حضرت کی نگرانی میں رہا، مگر کبھی انہیں دوسروں سے خدمت کراتے نہیں دیکھا۔ اگر ٹوپی دھلوانی بھی ہوتی تو بڑی معذرت کے ساتھ کہتے۔ وہ وقت کے نہایت پابند تھے، درسگاہ کا ناغہ نہیں کرتے اور بچوں کے حق میں نرم دل رکھتے۔ ان میں ایک نگران سے زیادہ باپ کی سی شفقت نمایاں تھی۔”
مولانا فہیم احمد ندوی (امام و خطیب مسجد الحمید، بیکن گنج) نے فرمایا:
“دس دن قبل ہی اسلامک سینٹر لکھنؤ کے ایک پروگرام میں حضرت سے ملاقات ہوئی۔ بڑی محبت سے ملے اور فرمایا کہ مجھے فخر ہے میں نے ان سے اعدادیہ میں تعلیم حاصل کی۔ ان کے بتائے ہوئے جملے آج بھی یاد ہیں۔ ان کی خاص بات یہ تھی کہ عربی ادب کے استاذ ہونے کے باوجود ترجمہ تین زبانوں — اردو، ہندی اور انگریزی — میں بتاتے تھے تاکہ معنی ذہن میں بیٹھ جائیں۔”
مولانا سید شافع رومی (اناؤ) نے کہا:
“اللہ نے استاذ محترم کو ایک نایاب صفت عطا فرمائی تھی — نفس کا غناء۔ وہ مال و دولت، شہرت، خوراک، پوشاک، حتیٰ کہ دنیا کی ہر نعمت سے بے نیاز تھے۔ اکیلے چلتے رہتے، نہ ادھر دیکھتے نہ ادھر۔ اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے، درجات بلند کرے اور ہمیں ان کی بتائی باتوں پر عمل کی توفیق دے۔ آمین۔”
پروگرام کا آغاز قاری عاصم صاحب کی تلاوتِ قرآنِ پاک سے ہوا، نظامت کے فرائض مولانا سعد خاں ندوی نے انجام دیے، جبکہ اختتامی دعا مولانا محمد ذاکر قاسمی (امام و خطیب مسجد یتیم خانہ) نے کی۔
آخر میں مفتی رضاء اللہ صاحب نے تمام حاضرین و مقررین کا شکریہ ادا کیا۔ اجلاس میں خصوصی طور پر مولانا محمد ذاکر قاسمی، مولانا عبد الہادی، مولانا ایاز احمد، مولانا رضاء اللہ، قاری محمد عاصم، کلیم ہاشمی، اور انجینئر محمد انس صاحبان موجود رہے۔