By using this site, you agree to the Privacy Policy and Terms of Us
Accept
NewsG24UrduNewsG24UrduNewsG24Urdu
  • سرورق
  • آج کل
  • سیاست
  • عالمی خبریں
  • سپورٹ کریں
  • Hindi
Search
  • اتصل
  • مقالات
  • شكوى
  • يعلن
© NewsG24 Urdu. All Rights Reserved.
Reading: ہم زاد، ایک افسانہ
Share
Notification Show More
Font ResizerAa
NewsG24UrduNewsG24Urdu
Font ResizerAa
  • سرورق
  • آج کل
  • سیاست
  • عالمی خبریں
  • سپورٹ کریں
  • Hindi
Search
  • سرورق
  • آج کل
  • سیاست
  • عالمی خبریں
  • سپورٹ کریں
  • Hindi
Have an existing account? Sign In
Follow US
NewsG24Urdu > Blog > ادبیات > ہم زاد، ایک افسانہ
ادبیات

ہم زاد، ایک افسانہ

Last updated: اپریل 22, 2025 3:26 شام
newsg24urdu 2 مہینے ago
SHARE

تحریر: ابوشحمہ انصاری سعادت گنج،بارہ بنکی

ہم زاد ایک افسانہ: بارہ برس بعد شہریار جیسے ہی گاؤں کی کچی سڑک پر اترا، گرد سے اٹے ہوئے درختوں نے اسے پہچاننے سے انکار کر دیا۔ وقت جیسے رک گیا تھا، مگر دھول اُڑاتی ہوائیں اسے وہ سب کچھ یاد دلا رہی تھیں، جسے وہ بھول چکا تھا۔ یا شاید بھول جانا چاہتا تھا۔

اس کے قدم خودبخود اُس پرانی حویلی کی جانب مڑ گئے، جو اب صرف کاغذی وراثت کا حصہ رہ گئی تھی، مگر اس کے دل میں آج بھی زندہ تھی۔ نیم کے درخت کے نیچے وہی پتھر کی بینچ موجود تھی، جس پر وہ اور اس کا جڑواں بھائی شہریاز گھنٹوں بیٹھ کر دنیا جہان کی باتیں کیا کرتے تھے۔ لیکن آج… وہ بینچ خالی تھی۔ اور خاموشی نے اس پر قبضہ جما رکھا تھا۔

حویلی کے دروازے پر زنگ آلود تالا لٹک رہا تھا۔ لیکن حیرت کی بات یہ تھی کہ تالا کچا محسوس ہوا، جیسے کسی نے حال ہی میں کھولا ہو یا کھولا رکھنے کے لیے بند ہی نہ کیا ہو۔

شہریار نے چابی نکال کر تالا کھولا۔ دروازہ چرچراتے ہوئے کھلا۔ اندر قدم رکھتے ہی ایک ٹھنڈی لہر اس کے وجود سے ٹکرائی۔ دیواروں پر جمی گرد نے برسوں کی خاموشی کی گواہی دی، اور چھت پر جھولتا پرانا پنکھا آج بھی تھما ہوا تھا، جیسے کسی کا انتظار کر رہا ہو۔

- Advertisement -
Ad imageAd image

وہ آہستہ آہستہ اُس کمرے کی طرف بڑھا جہاں بچپن کی نیندیں اور خواب دفن تھے۔ دروازہ کھولا تو ایک مانوس خوشبو نے اس کا استقبال کیا—سوکھے ہوئے پھولوں، پرانی کتابوں، اور اُن یادوں کی مہک، جنہیں وہ کبھی چھوڑ آیا تھا۔

سامنے ایک بڑا آئینہ رکھا تھا—پیتل کے فریم میں جڑا، ذرا سا ٹیڑا، اور دھندلا۔ وہ بچپن میں اکثر اس آئینے میں شہریاز کے ساتھ عکس دیکھ کر ہنستا تھا۔ لیکن آج… عکس میں کچھ الگ تھا۔

وہ چونک کر پیچھے ہٹا۔ آئینے میں ایک چہرہ تھا—ویسا ہی چہرہ جیسا اُس کا تھا۔ مگر آنکھیں مختلف تھیں۔ وہ شہریاز تھا۔

"شہریاز؟” اس کی آواز حلق میں اٹک گئی۔

"ہاں، میں ہوں۔ تمہیں لگا میں مر گیا؟” وہ مسکرایا، مگر آنکھوں میں ایک گہری تلخی تھی۔

- Advertisement -

"یہ… یہ خواب ہے؟”

"نہیں، یہ تمہاری حقیقت ہے۔ میں تمہارا ہم زاد ہوں۔ تمہارا وہ عکس… جو تم نے برسوں پہلے دفن کر دیا تھا۔”

شہریار کی سانسیں بے ترتیب ہونے لگیں۔ "تم… تم دریا میں ڈوب گئے تھے۔ سب نے کہا… حادثہ تھا…”

- Advertisement -

"نہیں، بھائی۔ وہ حادثہ نہیں تھا۔ وہ تم تھے۔ تم نے مجھے دھکا دیا تھا۔ تمہارے اندر کا حسد، غصہ، اور انا… وہی میری موت کی وجہ بنے۔”

شہریار کی آنکھوں میں نمی آ گئی۔ ماضی کی تصویریں اس کے ذہن میں گردش کرنے لگیں۔

وہ دن… جب دونوں بھائی دریا کے کنارے کھیل رہے تھے۔ شہریاز نے ایک بار پھر دوڑ جیت لی تھی، اور حسبِ عادت شہریار کا مذاق اُڑایا تھا۔ اُس وقت حسد نے، غصے نے، انا نے اس کے ہاتھوں میں ایک شیطانی طاقت بھر دی۔ ایک دھکا… اور شہریاز پانی میں جا گرا۔ چیختا رہا، ہاتھ پاؤں مارتا رہا… لیکن شہریار نے پلٹ کر نہیں دیکھا۔

"میں ڈر گیا تھا، شہریاز… میں بچہ تھا۔”

"نہیں، تم بچہ نہیں تھے، تم قاتل تھے… اپنے ہی عکس کے۔”

شہریار سسکنے لگا۔ "پھر تم کیا چاہتے ہو؟ بدلہ؟”

شہریاز نے آئینے کے پار سے ایک ہاتھ بڑھایا۔ "نہیں، میں تمہیں تمہارا اصل چہرہ دکھانا چاہتا ہوں۔ جس دن سے تم نے سچ چھپایا، اس دن سے تم زندہ نہیں، صرف چلتے پھرتے ایک سایہ ہو۔ میں وہ روشنی ہوں جو تم سے چھن گئی۔ اور اب وقت آ گیا ہے کہ تم خود کو پہچانو… یا ہمیشہ کے لیے گم ہو جاؤ۔”

اچانک آئینہ چمکنے لگا، اور شہریار نے خود کو اُس کے اندر قید پایا۔ اور باہر؟ شہریاز تھا۔ زندہ، مضبوط، مطمئن۔

دروازہ خود بخود بند ہو گیا۔ کمرے کی روشنی مدھم ہونے لگی۔

صبح جب گاؤں کے لوگ آئے، انہوں نے شہریار کو آئینے کے سامنے بیٹھے دیکھا۔ وہ خاموش تھا، نگاہیں خالی، چہرے پر ایک عجیب سکون… یا شاید ایک مستقل قید کا اظہار۔ وہ بولتا نہیں تھا۔ صرف آئینے سے باتیں کرتا تھا۔

کہتے ہیں، آئینہ جھوٹ نہیں بولتا۔ اور جو سچ ہم خود سے چھپاتے ہیں، وہ کبھی نہ کبھی ہم زاد بن کر لوٹ آتا ہے… سچائی کے روپ میں۔

0Like
0Dislike
50% LikesVS
50% Dislikes

You Might Also Like

سلیم تابش: سادگی، سچائی اور شعور کا شاعر

عدیل منصوری کے شعری مجموعہ "فکر و نظر” کی تقریب رونمائی

بزمِ مدنی کے زیرِ اہتمام یادِ مائل میں سجی چراغوں جیسی شعری شام

ادارہ علم وفن اور اسلوب آرگنائزیشن کے زیر اہتمام اعزازی تقریب

بزمِ ایوانِ غزل کا عظیم الشان طرحی مشاعرہ منعقد

TAGGED:افسانہافسانہ نگارافسانہ نگاریہم زاد افسانہہمزاد
Share This Article
Facebook Twitter Whatsapp Whatsapp LinkedIn Telegram Email Copy Link Print
Previous Article پدم شری گری راج کشور روڈ کااسمبلی اسپیکر نے کیا افتتاح
Next Article چترکوٹ کی طرز پر نیمش کے ترقیاتی فیصلے کا خیرمقدم: ڈاکٹر عمار رضوی چترکوٹ کی طرز پر نیمش کے ترقیاتی فیصلے کا خیرمقدم: ڈاکٹر عمار رضوی
Leave a review

Leave a review جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Please select a rating!

حسین! تم کو زمانہ سلام کرتا ہے
زندہ قومیں اپنی تہذیبی علامات کو ہر حال میں محفوظ رکھنے کی کوشش کرتی ہیں
علماء و مفتیان کرام کے لیے ایک خصوصی تربیتی کیمپ
اٹوا اسمبلی حلقہ: نئی کمیٹی کاانتخاب کرے گی پیس پارٹی
تبلیغی جماعت فلاحی خدمات میں ادا کرے فعال کردار: نظیفہ زاہد

Advertise

ہمارا موبائل اپلیکیشن ڈاؤن لوڈ کریں

NewsG24بھارت میں پروپیگنڈہ خبروں کے خلاف ایک مہم ہے، جو انصاف اور سچائی پر یقین رکھتی ہے، آپ کی محبت اور پیار ہماری طاقت ہے!
© NewsG24 Urdu. All Rights Reserved.
  • About Us
  • TERMS AND CONDITIONS
  • Refund policy
  • سپورٹ کریں
  • Privacy Policy
  • پیام شعیب الاولیاء
  • Contact us
Welcome Back!

Sign in to your account

Lost your password?