ہندوستانی عدلیہ کی خود مختاری پر منڈلاتا خطرہ: ایک جائزہ
حال ہی میں بھارت کی عدلیہ پر آر ایس ایس کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ پر کئی میڈیا رپورٹس اور تجزیاتی تبصرے سامنے آئے ہیں۔ جس میں اس بات کا دعویٰ کیا جارہا ہے کہ ہندوستانی عدلیہ پر آر ایس ایس کا کنٹرول بڑھتا جا رہا ہے۔ یہ مضمون انہی اعداد و شمار اور انٹرویوز پر مبنی ہے۔ جو ظاہر کرتے ہیں کہ کیسے آر ایس ایس سے منسلک تنظیمیں عدالتی نظام کو اپنے ہندو راشٹر کے ہدف کی طرف دھکیل رہی ہیں۔
یہ بحث کیوں اہم ہے؟
کسی بھی ملک کا عدالتی نظام جمہوریت کی بنیاد ہوتا ہے۔ لیکن عام آدمی اکثر اسے "اعلیٰ ترین سچ” مان کر بغیر سوال کیے قبول کر لیتا ہے۔ جو انتہائی سنگین لمحہ فکریہ سے عبارت ہے۔ عدالتی کاروائیوں کو ماننا لازمی ہوتا لیکن اس کے صحیح یا غلط پر تبصرہ کرنا ممنوع نہیں ہوتا۔ کسی بھی ملک کی عدلیہ بے لگام، سیاست کے زیر اثر یا پھر سرمایہ داری کے تابع نہ ہو۔ اس کے لئے عدالتی احکامات پر تبصرہ اور بحث کرنا جمہوریت کی بقا اور قیام انصاف کے لئے انتہائی ضروری ہے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق آر ایس ایس اور اس کے ساتھی تنظیمیں، جیسے "اکھل بھارتیہ ایڈووکیٹ پریشد (ABAP)”، قانونی نظام میں اپنی پکڑ بنا کر اپنے نظریات کو فروغ دے رہی ہیں۔
ABAP کا کردار: وکلا کا نیٹ ورک
ABAP، ایک وکلا کا نیٹ ورک ہے۔ جس کی بنیاد 1992 میں آر ایس ایس کے حامی وکلا نے رکھی تھی۔ آج بھارت کے سب سے بڑے وکلا تنظیموں میں سے ایک ہے۔ یہ تنظیم نچلی عدالتوں سے لے کر قانون کے طالب علموں تک ہندوتوا کے نظریات کو فروغ دینے میں مصروف ہے۔ تنظیم زیادہ سے زیادہ لوگوں کو آر ایس ایس نظریات کا حامی بنانے میں مصروف ہے۔ اس کے مطابق ہندوتوا کے حق میں ماحول بنانے یا عدالتی کاروائیوں کو متاثر کرنے کے لئے اگر ملک کے آئین اور قانون کی بالادستی کو ختم کرنا ضروری ہے تو اس سے بھی گریز نہیں کیا جانا چاہئے۔
ہندوستانی عدلیہ اورمودی حکومت:
قانونی ماہرین کا ماننا ہے کہ ملک کے کئی معاملات میں عدالتوں نے آئین کے خلاف جا کر ہندوتوا کے حق میں فیصلے صادر کئے ہیں۔ جو ملک میں آئین کی سربراہی اور عدلیہ کے خود مختار ہونے پر سوال کھڑے کرتے ہیں۔ ماہرین کے مطابق 2014 کے بعد آر ایس ایس کے کئی ایجنڈے، جیسے ایودھیا میں رام مندر کی تعمیر اور آرٹیکل 370 کا خاتمہ، عدالتی فیصلوں کے ذریعے پورے ہوئے ہیں۔ جن میں قانون کی بالادستی کم اکثریتی طبقے کی آہستھا خیال زیادہ رکھا گیا۔
ہندوستانی عدلیہ اور بابری مسجد فیصلہ:
سال 2019 میں سپریم کورٹ نے ایودھیا معاملے میں ہندو فریق کے حق میں فیصلہ دیا۔ جسے آر ایس ایس کی بڑی فتح سمجھا گیا۔ اس فیصلے کی سب سے خاص بات یہ رہی کہ سپریم کورٹ کے تمام ریمارکس اس بات کی شہادت دیتے ہیں کہ مسلم فریق حق پر تھا۔ لیکن اس کے بعد بابری مسجد کا فیصلہ مندر کے حق میں آیا۔ جو اس بات کا ثبوت ہے ہندوستانی عدلیہ کی خودمختاری مشکوک ہے۔
اس کے علاوہ قانون دانوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ اگر ملک میں عدلیہ آزاد ہوتا تو گیان واپی اور دیگر مساجد کے سروے آرڈر کبھی نہیں آتے۔ خاص کر جب تک ورشپ پلیس ایکٹ 1991 نافذ ہے۔
ججوں کی تقرری میں تنازعات:
ملک میں ایک خاص نظریہ یہ قائم ہوگیا ہے کہ وزیر آعظم مودی حکومت نے ہنوتوا کے حامی ججز کو اہم عہدوں پر تعینات کردیا ہے۔ اس ضمن میں جسٹس آدرش کمار گوئل کی بطور این جی ٹی (قومی ہریت ادھیکارن) سربراہ تعیناتی، کافی متنازع رہی۔ جن کے فیصلوں کو ماحولیات کے ماہرین نے "جلدی بازی پر مبنی اور غیر ذمہ دارانہ” قرار دیا۔
راجستھان میں "پدمیش مشرا” (سپریم کورٹ جج کے بیٹے) کی تقرری پر تنازعہ ہوا۔ جس کے لئے قوانین میں راتوں رات تبدیلی لائی گئی۔
آئین کو چیلنج؟:
ABAP کے رہنما کھل کر کہتے ہیں کہ "اگر ہندو اقلیت میں ہوتے، تو بھارت کبھی سیکولر ملک نہیں بنتا”
ABAP لیڈران کا ہدف آئین کو "ہندو راشٹر” کے مطابق ڈھالنا ہے، جس میں مسلم کمیونٹی کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔ تاکہ جلد سے جلد بھارت کو ایک ہندو راشٹر میں تبدیل کرنے خواب پورا کیا جاسکے۔
قانونی ماہرین کیوں پریشان ہیں؟
دراصل کسی بھی معاشرے میں امن وامان کے قیام کے لئے اس ملک کی آزاد ہونا لازمی ہے۔ عدلیہ کا سیاسی استعمال ملک کی سالمیت اور جمہوری روح کے لیے خطرہ ہے۔ ہندوستانی عدلیہ کی خود مختاری اگر اسی طرح سلب کی جاتی رہی تو بہت ممکن ہے کہ ہندوستان قومی اعتبار سے بکھراؤ کا شکار ہوسکتا ہے۔ جو اس پورے خطے کے لئے مہلک ثابت ہوسکتا ہے۔
ہندوستانی عدلیہ میں سیاسی مداخلت:
ملک کی حالیہ سیاست تمام تر اخلاقیات اور آئینی فرائض کو بالائے طاق رکھ کر کر ملک میں منووادی نظریہ قائم کرنا چاہتی ہے۔ آر ایس ایس حامی حکمران طبقہ مذہب، ذات، اور خطے کی بنیاد پر معاشرے کو تقسیم کر کے اپنا تسلط قائم رکھنا چاہتا ہے۔
مسلمان اور دیگر اقلیتوں کو واضح طور پر یہ کہا جارہا ہے کہ وہ ایک تو مذہب تبدیل کرکے ہندو بن جائیں یا پھر دوسرے اور تیسرے درجہ کا شہری بن کر بھارت میں رہ سکتے ہیں۔ جن کے پاس اپنے کوئی بھی آئینی حقوق نہیں ہوں گے۔
ہندو راشٹر کے لئے عدلیہ کا تعاون ضروری:
چونکہ عدلیہ کے خودمختار رہتے ہوئے آر ایس ایس کا یہ خواب کبھی بھی پورا نہیں ہوسکتاہے۔ اس لئے اس نے سب پہلے اپنے نظریات کے حامی وکیلوں کی ایک ٹیم کھڑی کی۔ پھر دھیرے دھیرے انہیں اہم عہدوں تک پہنچایا۔ اب جبکہ ہندوستانی عدلیہ پر آر ایس ایس کی پکڑ آہنی ہوگئی تو اس نے تدریجاً اپنے ایجنڈے کو زمین پر اتارنا شروع کردیا۔
مسلمان نشانے پر کیوں؟
آر ایس ایس کے ہندو راشٹر کے نظریات میں ملک کا مسلمان سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔ مسلمان آر ایس ایس کے لئے چیلنج اس لئے بن رہا ہے کیونکہ مسلمان جس آئیڈیالوجی کو مانتے ہیں۔ اس میں انسان بحیثیت انسان سب برابر ہیں۔ جبکہ آر ایس ایس کے ہندو راشٹر کا نظریہ اس کے برعکس ہے۔ اسلام کے اسی نظریہ مساوات کو کچلنے کی خاطر سب سے پہلے مسلمانوں کے ارد گرد گھیرا تنگ کیا جارہا ہے۔ آر ایس ایس کو لگتا ہے کہ اس سے دیگر اقلیتیں خوبخود سرینڈر کر دیں گی۔ اور اس کے ہندو راشٹر کا خواب پورا ہو جائے گا۔