از۔ڈاکٹر عمار رضوی سابق کارگزار وزیر اعلی اترپردیش(بھارت) کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ ہولی، دیوالی، عید، کرسمس، یہ سب کسی خاص مذہب کی جاگیر ہیں۔ ایسا نہیں ہے۔ ہولی، دیوالی اور دوسرے بہت سے تہواروں پر مختلف مذاہب کے ماننے والوں نے بہت کچھ لکھا ہے۔ ہمیں ہولی اور دیوالی کے زمانے میں اپنا بچپن اور محمود آباد کا گھر یاد آتا ہے، جہاں ہولی سے تین چار دن پہلے ہی ہم لوگ اپنی گلک میں جتنے بھی پیسے ہوتے، ان سے رنگ اور پچکاری خریدنے کی تیاری کرتے۔ ہمارے بچپن کے دنوں میں پلاسٹک کا آغاز ہوا تھا، اور زیادہ تر پچکاریاں پیتل وغیرہ کی ہوتی تھیں، جو مہنگی پڑتی تھیں۔ اسی لیے ہم لوگ لمبے پور والے بانس کاٹ کر اکٹھا کرتے اور ان سے دیسی پچکاریاں بنایا کرتے تھے۔
ایک بالٹی میں رنگ بھر کر پہلے پورے محلے میں ہر گھر جا کر عورتوں اور بچوں کو ایک طرف سے رنگ لگاتے، اور کسی کو کوئی اعتراض نہ ہوتا۔ بس کوئی اتنا کہتا: "بھیا، منہ پر رنگ نہ لگے!”
ہائی اسکول کے بعد لکھنؤ آنا پڑا۔ اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے بعد جب 74-1973میں بہوگنا جی کی حکومت بنی، تب میں شیعہ کالج میں پرنسپل تھا۔ اس کے بعد بہوگنا جی نے مجھے 11 گوتم پلی میں رہنے کے لیے جگہ دی۔
گوتم پلی کی ہولی بہت مشہور تھی۔ صبح دس بجے سب لوگ میرے گھر آ جاتے، جن میں زیادہ تر سینئر آئی اے ایس افسران ہوا کرتے تھے۔ میرے گھر کے برابر میں سریندر موہن صاحب رہا کرتے تھے، نرپیندر مشرا جی، جو بعد میں کابینہ کے سیکرٹری ہوئے، اشوک چندر صاحب، اندر پرکاش، پی. سی. شرما صاحب، شری سنت کمار تریپاٹھی، شری نسیم زیدی، ششی بھوشن شرن صاحب، برجندر یادو جی، گوپی کرشن اروڑا صاحب، پرشانت کمار جی وغیرہ۔
صبح دس بجے سب سے پہلے ہمارے گھر میں ایک دوسرے پر رنگ ڈالتے، گجیا کھاتے۔ یوگیندر نارائن جی آگے آگے رہتے، پھر سب کے گھروں میں جایا جاتا۔ ٹھنڈائی کا انتظام بھی رہتا اور کہیں کہیں اس میں بھنگ بھی ڈالی جاتی تھی۔ آخر میں یوگیندر نارائن جی کے گھر جاتے، جہاں ایک حوض ہوا کرتا تھا۔ اسی حوض میں سب ایک دوسرے کو دھکیلتے اور خوب لطف اندوز ہوتے۔
اس کے بعد ہم سب وزیر اعلیٰ کے گھر جاتے۔ ان کے دروازے سب کے لیے کھلے رہتے، چاہے وہ بہوگنا جی ہوں، یا نارائن دت تیواری، رام نریش یادو، بنارسی داس جی، وشوناتھ پرتاپ سنگھ، شری پتی مشرا، ویر بہادر سنگھ، ملائم سنگھ یادو، کلیان سنگھ، یا رام پرکاش گپتا۔ کسی کے بھی یہاں ہولی کے موقع پر ہمیں پوری آزادی حاصل تھی۔ سب لوگ 5 کالی داس مارگ کے لان میں زبردست ہولی کھیلتے تھے۔
وہاں نہ کوئی ہندو ہوتا، نہ مسلمان، نہ سکھ، نہ عیسائی—سب بھارت ماتا کے سپوت ہوتے اور مل کر ہولی کھیلتے تھے۔
ایک معزز شخصیت، جو بعد میں بھارت سرکار کے ہوم سیکریٹری بنے، ہولی کے رنگوں کے سخت مخالف تھے۔ اس لیے وہ ہولی کے دن اپنا گھر بند کر لیتے تھے۔ سریندر موہن جی اتر پردیش سرکار کے ہوم سیکریٹری تھے۔ میں نے ان سے کہا، "آپ ان کے گھر میں کود کر دروازہ کھولیے، کیونکہ اگر آپ کودیں گے تو ایف آئی آر نہیں ہوگا!” انہوں نے ایسا ہی کیا۔
اسی طرح داڑھی والے لوگوں کے لیے ہم لوگوں کے پاس خاص انتظام ہوتا تھا۔ جن کی داڑھی سفید ہوتی، ان کے لیے کالے رنگ کا پینٹ اور جن کی داڑھی کالی ہوتی، ان کے لیے سفید رنگ کا پینٹ موجود ہوتا۔
سب ایک دوسرے کے گھروں میں جاتے، پھر ہم لوگ راج بھون جاتے۔ وہاں میلے جیسا ماحول ہوتا۔ راج بھون کے دروازے بھی سب کے لیے کھلے رہتے تھے۔
موجودہ حالات میں جب میں ان سب باتوں کو سوچتا ہوں تو ایک خواب سا محسوس ہوتا ہے۔
ہولی اور دیوالی کے بارے میں نظیر اکبرآبادی نے جو کہا ہے، اس کی چند سطریں لکھ کر اپنی بات ختم کرتا ہوں:
جب فاگن رنگ جھمکتے ہوں، تب دیکھ بہاریں ہولی کی
اور دف کے شور کھڑکتے ہوں، تب دیکھ بہاریں ہولی کی
پریوں کے رنگ دمکتے ہوں، تب دیکھ بہاریں ہولی کی
خم، شیشے، جام جھلکتے ہوں، تب دیکھ بہاریں ہولی کی