تحریر: ابوشحمہ انصاری سعادت گنج،بارہ بنکی
ہم زاد ایک افسانہ: بارہ برس بعد شہریار جیسے ہی گاؤں کی کچی سڑک پر اترا، گرد سے اٹے ہوئے درختوں نے اسے پہچاننے سے انکار کر دیا۔ وقت جیسے رک گیا تھا، مگر دھول اُڑاتی ہوائیں اسے وہ سب کچھ یاد دلا رہی تھیں، جسے وہ بھول چکا تھا۔ یا شاید بھول جانا چاہتا تھا۔
اس کے قدم خودبخود اُس پرانی حویلی کی جانب مڑ گئے، جو اب صرف کاغذی وراثت کا حصہ رہ گئی تھی، مگر اس کے دل میں آج بھی زندہ تھی۔ نیم کے درخت کے نیچے وہی پتھر کی بینچ موجود تھی، جس پر وہ اور اس کا جڑواں بھائی شہریاز گھنٹوں بیٹھ کر دنیا جہان کی باتیں کیا کرتے تھے۔ لیکن آج… وہ بینچ خالی تھی۔ اور خاموشی نے اس پر قبضہ جما رکھا تھا۔
حویلی کے دروازے پر زنگ آلود تالا لٹک رہا تھا۔ لیکن حیرت کی بات یہ تھی کہ تالا کچا محسوس ہوا، جیسے کسی نے حال ہی میں کھولا ہو یا کھولا رکھنے کے لیے بند ہی نہ کیا ہو۔
شہریار نے چابی نکال کر تالا کھولا۔ دروازہ چرچراتے ہوئے کھلا۔ اندر قدم رکھتے ہی ایک ٹھنڈی لہر اس کے وجود سے ٹکرائی۔ دیواروں پر جمی گرد نے برسوں کی خاموشی کی گواہی دی، اور چھت پر جھولتا پرانا پنکھا آج بھی تھما ہوا تھا، جیسے کسی کا انتظار کر رہا ہو۔
وہ آہستہ آہستہ اُس کمرے کی طرف بڑھا جہاں بچپن کی نیندیں اور خواب دفن تھے۔ دروازہ کھولا تو ایک مانوس خوشبو نے اس کا استقبال کیا—سوکھے ہوئے پھولوں، پرانی کتابوں، اور اُن یادوں کی مہک، جنہیں وہ کبھی چھوڑ آیا تھا۔
سامنے ایک بڑا آئینہ رکھا تھا—پیتل کے فریم میں جڑا، ذرا سا ٹیڑا، اور دھندلا۔ وہ بچپن میں اکثر اس آئینے میں شہریاز کے ساتھ عکس دیکھ کر ہنستا تھا۔ لیکن آج… عکس میں کچھ الگ تھا۔
وہ چونک کر پیچھے ہٹا۔ آئینے میں ایک چہرہ تھا—ویسا ہی چہرہ جیسا اُس کا تھا۔ مگر آنکھیں مختلف تھیں۔ وہ شہریاز تھا۔
"شہریاز؟” اس کی آواز حلق میں اٹک گئی۔
"ہاں، میں ہوں۔ تمہیں لگا میں مر گیا؟” وہ مسکرایا، مگر آنکھوں میں ایک گہری تلخی تھی۔
"یہ… یہ خواب ہے؟”
"نہیں، یہ تمہاری حقیقت ہے۔ میں تمہارا ہم زاد ہوں۔ تمہارا وہ عکس… جو تم نے برسوں پہلے دفن کر دیا تھا۔”
شہریار کی سانسیں بے ترتیب ہونے لگیں۔ "تم… تم دریا میں ڈوب گئے تھے۔ سب نے کہا… حادثہ تھا…”
"نہیں، بھائی۔ وہ حادثہ نہیں تھا۔ وہ تم تھے۔ تم نے مجھے دھکا دیا تھا۔ تمہارے اندر کا حسد، غصہ، اور انا… وہی میری موت کی وجہ بنے۔”
شہریار کی آنکھوں میں نمی آ گئی۔ ماضی کی تصویریں اس کے ذہن میں گردش کرنے لگیں۔
وہ دن… جب دونوں بھائی دریا کے کنارے کھیل رہے تھے۔ شہریاز نے ایک بار پھر دوڑ جیت لی تھی، اور حسبِ عادت شہریار کا مذاق اُڑایا تھا۔ اُس وقت حسد نے، غصے نے، انا نے اس کے ہاتھوں میں ایک شیطانی طاقت بھر دی۔ ایک دھکا… اور شہریاز پانی میں جا گرا۔ چیختا رہا، ہاتھ پاؤں مارتا رہا… لیکن شہریار نے پلٹ کر نہیں دیکھا۔
"میں ڈر گیا تھا، شہریاز… میں بچہ تھا۔”
"نہیں، تم بچہ نہیں تھے، تم قاتل تھے… اپنے ہی عکس کے۔”
شہریار سسکنے لگا۔ "پھر تم کیا چاہتے ہو؟ بدلہ؟”
شہریاز نے آئینے کے پار سے ایک ہاتھ بڑھایا۔ "نہیں، میں تمہیں تمہارا اصل چہرہ دکھانا چاہتا ہوں۔ جس دن سے تم نے سچ چھپایا، اس دن سے تم زندہ نہیں، صرف چلتے پھرتے ایک سایہ ہو۔ میں وہ روشنی ہوں جو تم سے چھن گئی۔ اور اب وقت آ گیا ہے کہ تم خود کو پہچانو… یا ہمیشہ کے لیے گم ہو جاؤ۔”
اچانک آئینہ چمکنے لگا، اور شہریار نے خود کو اُس کے اندر قید پایا۔ اور باہر؟ شہریاز تھا۔ زندہ، مضبوط، مطمئن۔
دروازہ خود بخود بند ہو گیا۔ کمرے کی روشنی مدھم ہونے لگی۔
صبح جب گاؤں کے لوگ آئے، انہوں نے شہریار کو آئینے کے سامنے بیٹھے دیکھا۔ وہ خاموش تھا، نگاہیں خالی، چہرے پر ایک عجیب سکون… یا شاید ایک مستقل قید کا اظہار۔ وہ بولتا نہیں تھا۔ صرف آئینے سے باتیں کرتا تھا۔
کہتے ہیں، آئینہ جھوٹ نہیں بولتا۔ اور جو سچ ہم خود سے چھپاتے ہیں، وہ کبھی نہ کبھی ہم زاد بن کر لوٹ آتا ہے… سچائی کے روپ میں۔