By using this site, you agree to the Privacy Policy and Terms of Us
Accept
NewsG24UrduNewsG24UrduNewsG24Urdu
  • سرورق
  • آج کل
  • سیاست
  • عالمی خبریں
  • سپورٹ کریں
  • Hindi
Search
  • اتصل
  • مقالات
  • شكوى
  • يعلن
© NewsG24 Urdu. All Rights Reserved.
Reading: بھارت میں امت کو لاحق خطرات: آئینہ سامنے رکھ دوں تو پسینہ آجائے
Share
Notification Show More
Font ResizerAa
NewsG24UrduNewsG24Urdu
Font ResizerAa
  • سرورق
  • آج کل
  • سیاست
  • عالمی خبریں
  • سپورٹ کریں
  • Hindi
Search
  • سرورق
  • آج کل
  • سیاست
  • عالمی خبریں
  • سپورٹ کریں
  • Hindi
Have an existing account? Sign In
Follow US
NewsG24Urdu > Blog > مضامین > بھارت میں امت کو لاحق خطرات: آئینہ سامنے رکھ دوں تو پسینہ آجائے
مضامین

بھارت میں امت کو لاحق خطرات: آئینہ سامنے رکھ دوں تو پسینہ آجائے

Last updated: اگست 21, 2025 7:13 صبح
newsg24urdu 2 دن ago
بھارت میں امت کو لاحق خطرات: آئینہ سامنے رکھ دوں تو پسینہ آجائے
بھارت میں امت کو لاحق خطرات: آئینہ سامنے رکھ دوں تو پسینہ آجائے
SHARE

از: شفیق فیضی

بھارت میں تقریباً 20 کروڑ مسلمان آباد ہیں، جو مجموعی آبادی کا تقریباً 14 سے 15 فیصدی بنتے ہیں۔ یہ دنیا کی تیسری سب سے بڑی مسلم آبادی ہے۔ بھارت کے آئین میں آرٹیکل 14 (مساوات)، 15 (امتیاز کی ممانعت)، اور 25 سے 28 تک (مذہبی آزادی) کے تحت تحفظ کے باوجود، مسلمان اکثر ایسے مسائل سے دوچار ہیں جو مسلمانوں کو ان "حقوق” سے محروم کرتے ہیں۔ گو کہ اس کے لئے خود مسلمان بھی کم ذمہ دار نہیں ہیں، لیکن حکومتوں نے مسلمانوں کے ساتھ جو کیا، وہ اسپین کی طرز پر بھارت سے مسلمانوں کے خاتمے کی کہانی دوہرانے جیسا ہے۔

مشمولات
تاریخی پس منظرسماجی و معاشی مسائلقانونی اور سیاسی مسائلتشدد اور سلامتی کے خدشاتمیڈیا اور عوامی تاثربین الاقوامی تنقیدتقابلی تجزیہمسائل کا حل

افسوسناک المیہ یہ ہے کہ مسلمانوں کو اپنی اس خستہ حالی کااحساس تک نہیں، جس کے باعث ملت اسلامیہ ہند دن بدن ہلاکت سے قریب تر ہوتی جارہی ہے۔ بروقت ملک میں مسلمانوں کے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے ، یا کیا جارہا ہے وہ انتہائی خطرناک ہے۔ 2014 سے قبل بھی بھارت میں مسلمانوں کی حالت ٹھیک نہیں تھی، لیکن اس کے بعد جو ہوا اور کیا جارہا ہے، اس سے غالب یقین ہے کہ اگر آئندہ 5 یا 10 برس اور ایسے ہی گزر گئے اور مسلمانوں نے خود میں سدھار نہیں پیدا کیا، توبھارت میں ایک ایسا دن ضرور آئے گا جب یہاں مسلمانوں کی لاشیں گدھ اور کوے نوچ کر کھائیں گے۔

تحقیقی جائزہ : بھارت میں مسلمانوں پر تاریخی، سماجی-معاشی، قانونی اور سیکیورٹی، ہر پہلو سے گیھرا تنگ کیا جارہا ہے۔ اگرچہ بھارت میں مسلمان کچھ فلاحی پروگراموں سے فائدہ اٹھالیتے ہیں، لیکن انہیں بڑھتی ہوئی امتیازی سلوک، تشدد اور حاشیہ برداری کا سامنا ہے، جو اکثر ہندو قوم پرست پالیسیوں سے مزید صبر آزمابن جاتے ہیں، لیکن اس کے باوجود مسلمانوں کی مذہبی اور سیاسی لیڈرشپ یہ تسلیم کرنے کو تیار نہیں کہ ہر گزرتے دن کے ساتھ طاغوتی طاقتیں عام مسلمانوں کے ارتداد کا سامان کر رہی ہیں۔

صف اول کے مذہبی اور سیاسی مسلمان پہلے ہی کفر کی تابعداری میں امان کے متلاشی ہیں، یہ بات ٹھیک ہے کہ ایک جمہوری اور سیکولر ملک میں کچھ مجبوریاں ہوسکتی ہیں، لیکن اس کے باوجود ہم اپنی مذہبی شناخت اور اسلامی روایات کے تحفظ کا پورا حق رکھتے ہیں، اگر چاہیں تو ہم جمہوری قدروں کے ساتھ اپنی آئیڈیالوجی کے نفاذ کے لئے سیاسی تحریک چلا سکتے ہیں۔

- Advertisement -
Ad imageAd image

سیاسی یتمی کے باعث ایک بہت بڑی آبادی والے ملک میں مسلمانوں کے خلاف تشدد، عدم روداری، لنچنگ اور حکومتی تعصب، اب کوئی اہمیت نہیں رکھتی، بلکہ اسے پڑوسی ملک پاکستان یا بنگلہ دیس میں عمل کا رد عمل کہہ کر ٹال دیا جاتا ہے لیکن اس میں سچائی کم اور مسائل سے صرف نظر زیادہ ہے۔

تاریخی پس منظر

  • تقسیم اور اوائل آزادی (1947-1990): 1947 کی تقسیم نے مستقل فرقہ وارانہ کشیدگی پیدا کی، اور مسلمانوں کو "ممکنہ پاکستانی ہمدرد” سمجھا گیا۔ ابتدائی فسادات (مثلاً 1969 گجرات فسادات) اور 1984 کا سکھ مخالف تشدد (اگرچہ مسلمان اس میں مخصوص ہدف نہیں تھے) نے اقلیتوں کے خلاف حملوں کی مثال قائم کی۔ سچر کمیٹی رپورٹ (2006) نے مسلمانوں کی سماجی و معاشی پسماندگی کو اجاگر کیا، جس میں شرح خواندگی قومی اوسط سے 10 سے 15فیصدی کم اور سرکاری ملازمتوں میں نمائندگی صرف 5فیصدی سے بھی کم تھی، حالانکہ آبادی میں ملسمانوں کا حصہ 14فیصدی ہے۔
  • ہندوتوا کا عروج (1990 تا حال): 1992 میں بابری مسجد کی شہادت نے ملک گیر فسادات کو جنم دیا، جس میں 2,000 سے زیادہ افراد (زیادہ تر مسلمان) مارے گئے۔ اس دور میں ہندو قوم پرستی کا ابھار ہوا، جس نے مسلمانوں کو "باہر والے” یا خطرہ کے طور پر پیش کیا، اور نتیجتاً 2002 کے گجرات فسادات جیسے قتل عام ہوئے (سرکاری اعداد: 1,044 ہلاک، زیادہ تر مسلمان)۔
  • اہم نکتہ: تاریخی شکایات موجودہ مسائل کو ہوا دیتی ہیں، اور سیاست میں مسلمانوں کو اکثر قربانی کا بکرا بنایا جاتا ہے۔ مسلمان اپنی سیاسی پسماندگی کا حل نام نہاد سیکولر پارٹیوں میں تلاش کرتے ہیں، حالانکہ بھارت میں مسلمانوں کو دلتوں سے بھی بدتر انہیں نام نہاد سیکولر پارٹیوں نے کیا ہے، یہاں کسی خاص پارٹی یا آئیڈیالوجی کو کوسنا بے معنی ہوگا، مسلمانوں کی اس بربادی میں سب کا حصہ ہے، کسی کا کم یا زیادہ ہوسکتا ہے لیکن دامن سبھی کے مسلمانوں کے خون سے داغدار ہیں۔

سماجی و معاشی مسائل

  • تعلیم اور روزگار: مسلمانوں کی شرح خواندگی کم ہے (تقریباً ٪68 بمقابلہ قومی اوسط ٪74، 2011 مردم شماری کے مطابق)۔ روزگار میں امتیاز عام ہے؛ 2023 کی ایک تحقیق میں پایا گیا کہ مسلمان تعصب کی وجہ سے 40 فیصدی کم مواقع پاتے ہیں۔ شہری علاقوں میں غربت کی شرح 30 فیصدی سے زیادہ ہے، جبکہ ہندوؤں میں یہ 22 فیصدی ہے۔
  • رہائش اور علیحدگی: ممبئی اور دہلی جیسے بڑے شہروں میں "گھیٹوازیشن” کے باعث مسلمان کم وسائل والے علاقوں تک محدود ہیں، اور کرایہ پر مکان دینے سے انکار کی شکایات عام ہیں۔ پیو ریسرچ سینٹر (2021) کے مطابق شمالی بھارت کے 40 فیصدی مسلمانوں نے ذاتی امتیاز کا تجربہ کیا۔
  • اقتصادی بائیکاٹ: مسلم کاروباروں کے بائیکاٹ کی اپیلیں، خاص طور پر تہواروں کے دوران، مالی نقصان کا باعث بنتی ہیں۔ 2020 دہلی فسادات کے بعد مسلم دکانداروں نے آمدنی میں 50-70 فیصدی کمی کی شکایت کی۔
  • ایک موازنہ
اشاریہمسلمان (%)قومی اوسط (%)ماخذ نوٹس
شرح خواندگی (2021 تخمینہ)6874پیو ریسرچ
سرکاری ملازمتوں میں نمائندگی4-5تقریباً ٪14سچر رپورٹ اپڈیٹ
غربت کی شرح (شہری، 2023)30+25CFR رپورٹ
روزگار میں امتیاز40% کم مواقعنامعلومHRW رپورٹ
  • متوازن پہلو: حکومت کی اسکیمیں جیسے "میریٹ-کم-مینز اسکالرشپ” (سالانہ 30,000 روپے) اور "نئی روشنی” (مسلم خواتین کے لیے ہنر کی تربیت) اس خلا کو کم کرنے کے لیے ہیں، وزارت برائے اقلیتی امور سالانہ اربوں روپے مختص کرتی ہے۔ لیکن کے باوجود مسلمانوں کی حالت میں سدھار کے بجائے مزید گراوٹ درج کی گئی ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ مسلمان حکومتی پالیسیوں میں دلچسپی نہیں لیتے، بلکہ اس کے لئے حکومتی اداروں میں بدعنوانی بڑی وجہ ہے، پارلیمنٹ سے بجٹ پاس کرکے ڈیتا مہیا کرا دیا جاتا ہے، لیکن زمینی سطح پر اقلیتوں کے لئے چلائی جارہی اسکیمیں نافذ نہیں کی جاتیں، بالآخر مختص کیا گیا بجٹ سرکاری خزانوں میں لوٹا دیا جاتا ہے۔ اور یہ صرف اس لئے ہوپاتا ہے کیونکہ پارلیمنٹ میں اس کے خلاف مسلمانوں کی آواز کمزور ہے۔

قانونی اور سیاسی مسائل

  • شہریت قوانین: شہریت ترمیمی ایکٹ (CAA، 2019) غیر مسلم پناہ گزینوں کے لیے شہریت کا راستہ آسان بناتا ہے، جبکہ مسلمانوں کو شامل نہیں کرتا، جس سے NRC (آسام، 2019) کے ساتھ مل کر امتیاز کے خدشات بڑھ گئے، جہاں 19 لاکھ افراد (بہت سے مسلمان) خارج کر دیے گئے۔
  • ممکنہ این آر سی: شہریت ترمیمی ایکٹ کے موجودہ شکل میں اگر آئندہ ایام میں پورے بھارت کے لئے این آر سی اگر لاگو کیا گیا، تو اس کے انجام مسلمانوں کے لئے انتہائی مہلک اور خطرناک ہوں گے، غیر مسلموں کو سی اے اے سے تحفظ مل جائے گا لیکن مسلمانوں کو غیرملکی کہہ کر ڈیٹینشن سینٹر بھیج دیا جائے گا، چونکہ ملکی سطح پر مسلمانوں کی اپنی کوئی آواز نہیں ہے، اس لئے اس کے خلاف کسی تحریک کے امکانات بھی کالعدم ہیں، آسام کے مسلمانوں کے ساتھ کیا کچھ ہورہا ہے، اس سے عبرت لی جاسکتی ہے۔
  • اینٹی-کنورژن قوانین ("لو جہاد”): اتر پردیش اور مدھیہ پردیش میں نافذ، یہ قوانین مخلوط شادیوں کو ہدف بناتے ہیں، جس سے زیادہ تر مسلم مرد متاثر ہوتے ہیں۔ 2020-2023 میں 100 سے زائد گرفتاریاں ہوئیں، اکثر الزامات جھوٹ اور بے بنیاد ثابت ہوئے، لیکن اس کے باوجود یہ طوفان تھمنے کا نام نہیں لے رہا ہے۔
  • عدالتی دشواریاں: لوجہاد اور اںٹی کنورژن قانون کے تحت عدالتوں میں وکلاء مذہبی تعصب پرستی کا مظاہرہ کرتے ہیں، جبکہ پولس بغیر کسی جانچ پڑتال کے ایسے معاملوں میں مسلمانوں کو پہلی فرست میں جیل بھیجنے کا کام کرتی ہے۔ وکیلوں کی بے وجہ ہڑتال اور رخنہ اندازی کے سبب برسوں تک مسلمانوں کو ضمانت نہیں مل پاتی، عدالتیں بھی اب سیاست کے ماتحت فیصلے سناتی ہیں۔ ایسے انصاف کون کرے گا اور کہاں ملے گا؟ یہ سوچ کر ہی کلیجہ منھ کو آجاتا ہے۔
  • وقف پراپرٹیز بل (2025): وقف انتظام میں مجوزہ اصلاحات مسلمانوں کی 8,70,000 جائیدادوں پر قبضے کے خدشات پیدا کرتی ہیں، تاہم حمایتی شفافیت اور کرپشن میں کمی کو جواز بناتے ہیں۔ لیکن حقیقت اس کے برخلاف ہے، ابھی اس قانون کو ہری جھنڈی بھی نہیں ملی ہے، لیکن ملک کے کونے کونے میں اسلامی عبادت گاہوں کو مندر میں تبدیل کرنے کی مہم تیز سے تیز تر ہوتی جارہی ہے۔ عدالت میں سنوائی مکمل ہوچکی ہے لیکن فیصلہ ابھی تک نہیں آیا ہے، ایسا لگتا ہے کہ عدلیہ بھی مسلمانوں کے قوت مدافعت کو چیک کرنے میں مصروف ہے۔
  • سیاسی نمائندگی کی کمی: مسلمان پارلیمان میں صرف 4-5 فیصدی نشستیں رکھتے ہیں حالانکہ ان کی آبادی کا حصہ 14فیصدی ہے، اور بی جے پی بہت کم مسلم امیدوار نامزد کرتی ہے۔ جن نامزد کرتی ہے وہ بھی الیکشن ہار جاتے ہیں۔ اس سے بھی بڑی بات یہ ہے کہ پارلیمنٹ میں مسلمانوں کی تعداد چاہے جتنی ہوجائے، مسلم ممبر آف پارلیمنٹ اپنی پارٹی گائڈلائن کے خلاف ایک لفظ بھی بولنے کی حیثیت نہیں رکھتے۔
  • تنقیدی پہلو: کچھ ذرائع خاص کر بی جے پی اور آرایس ایس سے جڑے لوگ یہاں کہتے ہیں کہ بھارت کے قوانین پاکستان (جہاں احمدیوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے) یا سعودی عرب (جہاں شیعوں پر پابندیاں ہیں) کے مقابلے بھارتی مسلمانوں کو زیادہ تحفظ فراہم کرتے ہیں، اور مسلمانوں کے لیے خصوصی فلاحی اقدامات جیسے کچھ ریاستوں ریزرویشن وغیرہ موجود ہیں۔ مطلب دوسرے لفظوں میں یہ کہا جاتا ہے کہ جن حالات میں مسلمان جی رہے ہیں، انہیں اس سے ابھرنے کی اجازت نہیں ہے۔

تشدد اور سلامتی کے خدشات

  • فرقہ وارانہ تشدد: 2020 دہلی فسادات (53 ہلاکتیں، زیادہ تر مسلمان) اور 2022 کرناٹک میں حجاب پابندی کے مظاہرے ریاستی شمولیت کی مثال ہیں۔ "گائے کے تحفظ” کے نام پر ہجومی تشدد بڑھا، اور 2010-2023 میں متاثرین میں 84 فیصدی مسلمان تھے۔
  • بلڈوزر انصاف: اتر پردیش اور مدھیہ پردیش میں فسادات کے بعد مسلمانوں کی جائیدادوں کو "سزا” کے طور پر مسمار کیا گیا، جس سے 2022-2024 میں سینکڑوں متاثر ہوئے۔ ایمنسٹی نے اسے غیر قانونی قرار دیا، متعدد بار عدالتوں نے بھی اس کو غیرقانونی قرار دیا، لیکن اس کے باوجود آج تک کسی مسلمان کے گھر کو دوبارہ تعمیر نہیں کیا گیا، بلکہ بلڈوزر کارروائیوں میں مزید اضافہ ہوگیا۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ مسلم گھروں کو مسمار اس لئے نہیں کیا جاتا ہے کہ وہ غیرقانونی ہیں، بلکہ ایسا اس لئے کیا جاتا کیونکہ اکثریتی طبقہ حکومت سے اس کی ڈیمانڈ کرتا ہے، جس کے پاداش میں مساجد، مدارس، مزارات اور مسلم گھروں کو تباہ کیا جارہا ہے، جس کا سیدھا سا مطلب یہ ہوتا ہے مستقبل میں اس طرح کے مطالبے اور کارروائیاں مزید بڑھیں گی۔
  • علاقائی ہاٹ اسپاٹ:
    • کشمیر: 2019 میں آرٹیکل 370 کی منسوخی کے بعد فوجی موجودگی، جبری حراستیں اور آبادی کے ڈھانچے میں تبدیلیاں۔
    • آسام: NRC اور بارڈر ویجیلینس مسلمانوں کو بے وطن بنا رہا ہے۔
    • اتر پردیش: 2025 میں نفرت پر مبنی جرائم میں اضافہ، سیاسی بیانات کے باعث حملے۔
  • نفرت انگیز جرائم میں اضافہ: 2025 کی ایک رپورٹ میں جسمانی حملوں سے لے کر توڑ پھوڑ تک واقعات میں اضافہ درج کیا گیا، جو اکثر آن لائن نفرت انگیزی سے بھڑکے۔

بھارت میں مسلمانوں کے خلاف مذکورہ بالا تمام جرائم کو درست ٹھہرانے کے لئے، آر ایس ایس اور ہندو انتہا پسند حلقے کہتے ہیں کہ فسادات میں تشدد دوطرفہ ہوتا ہے، اور مسلمانوں کو بھارت میں وہ آزادی حاصل ہے جو پاکستان میں اقلیتوں کو نہیں ہیں۔

میڈیا اور عوامی تاثر

  • نفرت انگیز تقریر: بی جے پی رہنماؤں کے اشتعال انگیز بیانات (جیسے "لو جہاد” بیانیہ) مسلمانوں کے خلاف تعصب کو معمول بناتے ہیں، جسے میڈیا مزید بڑھاتا ہے۔ HRW کی 2024 رپورٹ نے انتخابی مہم کو زیادتیوں میں اضافے سے جوڑا۔
  • سوشل میڈیا کا کردار: پلیٹ فارمز پر تقسیم نظر آتی ہے؛ کچھ پوسٹیں روزمرہ امتیاز (مثلاً نوکری سے انکار) کو اجاگر کرتی ہیں، تو کچھ لوگ مظلومیت کے بیانیے کو مبالغہ قرار دیتے ہیں۔
  • اسلاموفوبیا: سروے بتاتے ہیں کہ شمالی بھارت کے 40 فیصدی مسلمانوں نے گزشتہ سال امتیازی سلوک کا تجربہ کیا۔

چونکہ ملک کا مین اسٹریم میڈیا زعفرانی ایجنڈہ سازی کا شکار ہے اس لئے صحافت کے نام پر مسلمانوں کے خلاف نفرت کو فروغ دیا جارہا ہے، کچھ مسلمانوں کو اس بات کا احساس ہے کہ میڈیا ان کے خلاف پروپیگنڈہ نیوز چلاتا ہے، لیکن ان کے پاس اس کا کوئی حل نہیں ہے، پورے ملک میں ایک بھی ایسا ادارہ نہیں ہے منظم طریقے سے مسلمانوں کی آواز اٹھا سکے، کچھ انفرادی کوششیں ہورہی ہیں لیکن وسائل کی کمی اور مالی بحران کے باعث خاطر خواہ نتیجہ نہیں مل پارہا ہے، نیوز جی 24 بھی اس کے متبادل کے طور پر شروع کیا گیا، لیکن امید کے مطابق مسلمانوں نے پذیرائی نہیں بخشی،

مسلمان میڈیا جیسے لازمی اور بنیادی ضرورت پر پیسہ خرچ کرنے کے بجائے جلسہ، جلوس، چادر اور گاگر جیسے بے سود چیزوں پر کروڑوں لٹا رہا ہے۔ ہر دن نئے مدارس کے قیام پر لاکھ لاکھ خرچ کیا جا رہا ہے لیکن پہلے قائم مدرسوں کو بچانے پر ایک روپیہ بھی لگانا حماقت سمجھتا ہے، پیروں خطیبوں کی جیبیں بھرنے والا مسلمان سو پچاس بھی تعمیری کاموں پر صرف نہیں کرتا، ایسے آنے والے دنوں میں میڈیا ابھی اور کتنی طوفان بدتمیزی کھڑا کرے گا کچھ کہا نہیں جاسکتا۔

بین الاقوامی تنقید

امریکی محکمہ خارجہ اور اقوام متحدہ (2022-2025) نے بھارت کی پالیسیوں پر اعتراض کیا، جبکہ بھارتی حکام اسے عالمی اقلیتی مسائل کے مقابلے میں پیش کرتے ہیں۔ جس کا سیدھا مطلب ہے کہ حکومت مسلمانوں کی بہتری نہیں چاہتی ہے، بلکہ ایک واضح اشارہ بھی ہے کہ مستقبل میں حالات مزید خراب کئے جائیں گے۔

- Advertisement -

تقابلی تجزیہ

  • پڑوسی ممالک سے موازنہ: بھارت کے مسلمان پاکستان (احمدیوں پر مظالم) یا چین (اوئیغور کیمپ) کے مقابلے میں زیادہ مذہبی آزادی رپورٹ کرتے ہیں، لیکن انڈونیشیا یا ملائیشیا کے مقابلے میں زیادہ فرقہ وارانہ تشدد کا سامنا کرتے ہیں۔
  • اندرونی اقلیتیں: دلت (ذات پر مبنی امتیاز) یا عیسائی (گرجا گھروں پر حملے) کے مسائل سے مختلف، مسلمانوں کے مسائل مذہب سے متعلق ہیں، اگرچہ غربت میں مماثلت ہے۔
  • موازنہ جدول
ملک/گروہکلیدی مسائلتحفظات/فلاحماخذ
بھارت (مسلمان)تشدد، CAA جیسے قوانیناسکالرشپ، وقفHRW، ایمنسٹی
پاکستان (ہندو)جبری تبدیلی مذہب، توہین رسالتمحدودCFR
بھارت (دلت)ذات پات پر مبنی امتیازریزرویشنپیو

مسائل کا حل

  • پالیسی اصلاحات: اینٹی-ڈسکریمنیشن قوانین کو مضبوط کیا جائے، NRC/CAA میں غیر جانبداری یقینی بنائی جائے، اور نفرت انگیز تقاریر کو کنٹرول کیا جائے۔
  • کمیونٹی اقدامات: بین المذاہب مکالمے اور معاشی بااختیاری پروگراموں کو فروغ دیا جائے۔
  • تحقیق کی ضرورت: فلاحی اثرات پر طویل مدتی مطالعات اور اقلیتوں کا تقابلی ڈیٹا۔
  • بین الاقوامی کردار: اقوام متحدہ کی مانیٹرنگ اور امداد کو انسانی حقوق کی بہتری سے مشروط کیا جائے۔

بھارت میں مسلمان تشدد، امتیاز اور حاشیہ برداری کے مسائل سے دوچار ہیں، جو حالیہ حکمرانی میں شدت اختیار کر گئے ہیں، تاہم مخصوص فلاحی پروگرام ان مسائل کو کسی حد تک کم کرتے ہیں۔ متوازن تجزیہ ظاہر کرتا ہے کہ یہ مسائل اہم ہیں مگر عالمی سطح پر منفرد نہیں۔ ہاں یہ ممکن ہے کہ اگر ان پر کنٹرول نہیں کیا گیا تو مسلمانوں کے حق میں اس کے نتائج بہت بیانک ثابت ہوں گے۔

ملک میں مسلمانون کو درپیش مسائل کے حل کی بات کریں، تو بھارت میں سیکولرزم کے ساتھ ساتھ مختلف نظریہ حیات پائے جاتے ہیں، جن کے نفاذ کی خاطر مختلف اقوام اور سیاسی جماعتیں جد جہد بھی کر رہی ہیں:

  • قوم پرستی (Nationalism) خاص طور پر ہندو قوم پرستی (Hindutva) اور بھارتی قوم پرستی۔
  • سوشلسٹ نظریات (Socialism) معاشی برابری، فلاحی ریاست اور ریاستی مداخلت پر زور۔
  • لبرلزم (Liberalism) جمہوریت، آزادیِ رائے، منڈی کی معیشت اور انفرادی حقوق پر زور۔
  • قدامت پسندی (Conservatism) روایتی اقدار، مذہبی و ثقافتی ورثے کی حفاظت۔
  • گاندھیائی فلسفہ (Gandhian Philosophy) عدم تشدد، دیہی خود کفالت، اور اخلاقی سیاست۔
  • دلت/سماجی انصاف کی سیاست (Ambedkarite / Social Justice Movements) ذات پات کے خلاف جدوجہد، مساوات اور دلت تحریکیں۔
  • علاقائی قوم پرستی (Regionalism) مختلف ریاستوں اور زبانوں پر مبنی علاقائی نظریات (جیسے تمل قوم پرستی، پنجابی سبھائی تحریک وغیرہ)۔

ان ںطریات کو مدنظر رکھتے ہوئے، اسلام کو بطور ایک سیاسی آیڈیالوجی اگر مناسب حکمت عملی اور جمہوری انداز میں عوام درمیان رکھا جائے، تو اس کے انتہائی مثبت نتائج نکل سکتے ہیں، خاص کر اسلام کا سماجی انصاف اور طریقہ تجارت پوری تسلیم کرتی ہے۔ اگر ملت اسلامیہ ہند ایسا کرنے میں کامیاب ہوجائے تو پورا ہندوستانی معاشرہ اس کا احسان مند ہوگا، اور یہ دینی اعتبار سے اسلام کی بھی ایک بڑی خدمت ہوگی۔

- Advertisement -
1Like
0Dislike
100% LikesVS
0% Dislikes

You Might Also Like

فروغ رضویات میں علامہ ضیاء المصطفے قادری امجدی گھوسوی کا تابندہ کردار

وہ آزادی جو خون سے لکھی گئی

پروفیسر خواجہ اکرام الدین: اردو زبان کا عالمی سفیر

خودی کو سمجھا نہیں، احساس زیاں بھی جاتا رہا

کعبے کے برہمن: مانند بتاں پجتے ہیں کعبے کے برہمن

TAGGED:آئینہ سامنے رکھ دوں تو پسینہ آ جائےاسلاموفوبیاامت کو درپیش مسائلشفیق فیضیقدامت پسندیگاندھیائی فلسفہنفرت انگیز
Share This Article
Facebook Twitter Whatsapp Whatsapp LinkedIn Telegram Email Copy Link Print
Previous Article فروغ رضویات میں علامہ ضیاء المصطفے قادری امجدی گھوسوی کا تابندہ کردار
Next Article وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ سے ڈاکٹر عمار رضوی کی اہم ملاقات
Leave a review

Leave a review جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Please select a rating!

عرس انجم العلماء کا عظیم الشان انعقاد, خصوصی ضمیمہ کا رسم اجراء
درگاہ کمیٹی نے تعلیمی ادارے اور اسپتال کے قیام کا کیا اعلان
وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ سے ڈاکٹر عمار رضوی کی اہم ملاقات
بھارت میں امت کو لاحق خطرات: آئینہ سامنے رکھ دوں تو پسینہ آجائے
فروغ رضویات میں علامہ ضیاء المصطفے قادری امجدی گھوسوی کا تابندہ کردار

Advertise

ہمارا موبائل اپلیکیشن ڈاؤن لوڈ کریں

NewsG24بھارت میں پروپیگنڈہ خبروں کے خلاف ایک مہم ہے، جو انصاف اور سچائی پر یقین رکھتی ہے، آپ کی محبت اور پیار ہماری طاقت ہے!
© NewsG24 Urdu. All Rights Reserved.
  • About Us
  • TERMS AND CONDITIONS
  • Refund policy
  • سپورٹ کریں
  • Privacy Policy
  • پیام شعیب الاولیاء
  • Contact us
Welcome Back!

Sign in to your account

Lost your password?