از: خورشیدعالم ہمدم گونڈویذرائع ابلاغ سے معلوم ہوا کہ بانی تحریک فروغ اسلام مولانا قمرغنی عثمانی صاحب جیل میں بھوک ہڑتال پر ہیں۔ جیل انتظامیہ نے بہت سمجھانے کی کوشش کی مگر امت کی بے حسی کا شکار مولانا قمر غنی عثمانی ابھی بھی بھوک ہڑتال جاری رکھنے پر بضد ہیں۔انہوں نے اندرون جیل پہونچائی جانے والی اذیتوں کے تعلق سے ایک مکتوب بھی جاری کیا تھا۔ جس کو مرکزی حکومت کے پاس بھیج دیاگیا ہے لیکن ارباب اقتدار نے ابھی تک اس پر کوئی قدم نہیں اٹھایا۔ مسلم حلقوں سے ملی جانکاری کے مطابق موجودہ مرکزی حکومت سے کسی مثبت ایکشن کی امیدبھی نہیں کی جاسکتی۔
>>>>>>>>>lass=”yoast-text-mark” />>مولانا قمر غنی عثمانی کے تعلق سے خانقاہوں کے سجادگان سمیت سماجی اور سیاسی جماعتوں میں بھی کا فی سرد مہری دیکھی جارہی ہے ایسے میں حکومت یا پھر کسی دیگر سیاسی یا غیر سیاسی تنظیم سے امید رکھنا بھی حماقت سمجھا جائے گا۔
زمینی حقائق
<!– wp:paragraph –>اشتہارات و پمفلیٹ سے کی بات کریں تو ہندوستان میں قائدین و عمائدین کی کمی نہیں ہے۔ مگر ان میں سے آج تک کسی نے بھی مولانا قمر غنی عثمانی کی حمایت میں ایک لفظ بھی بولنے کی ہمتنہیںدکھائی۔ جس طرح امام حسین کی شہادت پرمسلمانوں کا ایک بڑاطبقہ خاموش تھا بالکل اسی طرح آج ہندوستان کے بیشتر علماء و فقہاء اور ارباب سیاست سب خاموش ہیں۔
امت کی بے حسی کا شکار
یہاں محمدی ہونے کی فضیلت نہیں، بلکہ خانقاہی اور شخصیت پرستی کا بول بالا ہے۔ ورنہ مولانا قمر غنی عثمانی جس عظیم کام کی پاداش میں پاپندسلاسل ہیں۔ ایسے مسئلوں میں ان کی حمایت میں امت مسلمہ کا ایک طوفان کھڑا ہوجانا چاہئے تھا۔ لیکن افسوس ایسا نہیں ہو رہا ہے۔ جو پوری امت مسلمہ اور ملت اسلامیہ ہند کے لئے شرمناک ہے۔<!– wp:paragraph –><p>جب اہل بصیرت مادی طاقتوں سے مرعوب ہوجائیں تو شاہین وقت ان پر اپنی گرفت مضبوط کرلیتاہے آج ہم جس زمانے میں جی رہے ہیں وہاں اگر کوئی موجودہ مفتیان کرام وخطباء عظام یا کسی ملی شخصیت کے بارے میں لب کشائی کردے توان سے منسلک معتقدین اور محبین گالی گلوج تکدینے سے پرہیز نہیں کرتے۔ بعض اوقات تو کافرتک بنانے سے بھی دریغ نہیں کرتے۔
صوبہ بہارسے مولانا اخترنظامی نے راقم کو بتایا کہ بعض طلبہ مجھے فیس بک پرگالی دیتے ہیں ۔ جس کا سیدھا سا مطلب یہ سمجھا جاسکتا ہے کہ اگر کسی کے نزدیک تقویٰ و طہارت کا معیار شخصیت پرستی ہو تو وہ گالی ہی دی سکتا ہے اور اس کے نزدیک اس کا پیر یا جس سے اس کی عقیدت ہے وہی سب سے معتبر ہوگا۔<p>در اصل یہی وہ لوگ ہیں جن سے ملت اسلامیہ کافائدہ کم نقصان زیادہ ہورہاہے یہی وہ لوگ ہیں جو پیر و مرشد حضورتاج الشریعہ کے سفر کی جہتیں طے کیاکرتےتھے۔ فلاں جگہ جانا اور فلاں جگہ نہیں جانا۔ ان سے ملاقات کرنا ہے اور ان سے دوری بنائے رکھناہے۔ ایسےلوگ آج بھی ختنہ سے زیادہ فتنہ کاپرچارکررہے ہیں۔<br />مولانا قمرغنی عثمانی کی زندگی ان فتنوں سے پاک ہے شاید اسی لئے کوئی ان کے لئے قربانی دینے کو تیارنہیں۔</p><p>یوں تو اکابر اہلسنت کی ایک لمبی فہرست ہے جو اپنی زندگی کو نبی کی عصمت پر قربان کا دم بھی بھرتےہیں۔ لیکن عملی زندگی میں گفتار کے غازی یہ تمام اکابر اہلسنت کردار سے خالی نکلے ۔ آج اگر
ناموس رسالت کی خاطر کوئی اپنےآپ کو قربان کر رہا ہے تو وہ صرف اور صرف مولانا قمرغنی عثمانی صاحب ہیں۔</p><p><p>مستقبل میں جب بھی عاشقان مصطفی وتحفظ ناموس رسالت پربات ہوگی تو تاریخ میں مولانا قمر غنی عثمانی کا نام جلی سرخیوں میں لکھا جائےگا۔ رہتی دنیا تک انہیں ناموس رسالت کے ایک سپاہی کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔ایک دور تھاجب "قرآن غیرمخلوق ہے” کے نام پر امام حنبل علیہ الرحمہ کوپابندسلاسل کردیاگیاتھا۔ آج بھر تاریخ خود کو دوہرا رہی ہے۔ بس فرق اتناہے کہ اس وقت وہاں ائمہ اربعہ کا ایک
فردعظیم تھا اور آج یہاں ائمہ اربعہ میں سے امام اعظم کا ایک مقلدعالم دین ہے۔ جسے ناموس رسالت کے نام پرسلاخوں کے پیچھے ڈال دیا گیا ہے۔ آج ان کی زندگی کے شب وروز مصائب و آلام میں گزررہے ہیں مگر کسی کو کوئی احساس نہیں۔ممبئ کے کچھ با ہمت علماء ہیں جو مولانا قمرغنی عثمانی کی رستگاری پرکام کررہے ہیں۔ مگر یہ وہ لوگ ہیں جنھیں بڑے علماء یا کسی سیاسی شخصیت کی حمایت حاصل نہیں ہے۔ بس اللہ غیب سے کوئی راستہ نکال دے توان شاء اللہ حضرت باہرآسکتے ہیں۔</p><p>
[…] یکسوئی کے ساتھ فاتحہ خوانی کی دل کی دنیا میں جو بےچینی تھی وہ ختم ہو گئی۔ درگاہ […]
[…] سے نوازتے ہوئے ان کی ستائش کی گئی اور ’رنر فاتح‘ رہے طلباء کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے انہیں بھی تشجیعی انعامات سے […]