By using this site, you agree to the Privacy Policy and Terms of Us
Accept
NewsG24UrduNewsG24UrduNewsG24Urdu
  • سرورق
  • آج کل
  • سیاست
  • عالمی خبریں
  • سپورٹ کریں
  • Hindi
Search
  • اتصل
  • مقالات
  • شكوى
  • يعلن
© NewsG24 Urdu. All Rights Reserved.
Reading: بابری مسجد کی تاریخ خود کو دوہرائے گی
Share
Notification Show More
Font ResizerAa
NewsG24UrduNewsG24Urdu
Font ResizerAa
  • سرورق
  • آج کل
  • سیاست
  • عالمی خبریں
  • سپورٹ کریں
  • Hindi
Search
  • سرورق
  • آج کل
  • سیاست
  • عالمی خبریں
  • سپورٹ کریں
  • Hindi
Have an existing account? Sign In
Follow US
NewsG24Urdu > Blog > سیاست > بابری مسجد کی تاریخ خود کو دوہرائے گی
سیاستمضامین

بابری مسجد کی تاریخ خود کو دوہرائے گی

Last updated: فروری 3, 2025 1:08 شام
mohdshafiquefaizi 6 مہینے ago
بابری مسجد کی تاریخ
بابری مسجد کی تاریخ خود کو دوہرائے گی
SHARE

مشہورکہاوت ہے کہ تاریخ خود کو دوہراتی ضرور ہے لیکن یہ مدت اتنی مختصر ہوگی دنیا کو اس کی امیدہرگز نہیں تھی، قیصر روم (اٹلی) جسٹینین اول نے 537 عیسوی میں آیا صوفیاکلیسا کی تعمیرکے بعد حضرت سلیمان علیہ السلام پر طنز کرتے ہوئے کہا تھاکہ”سلیمان میں تم پر سبقت لے گیا” جو دراصل بیت المقدس کی تعمیر پر تکبرانہ اور گستاخانہ جملہ تھا.

آیا صوفیا کلیسا سلطان محمد فاتح کے ہاتھوں فتح قسطنطنیہ تک مسیحیوں کا دوسرا بڑا مذہبی مرکز بنا رہا ہے، تقریباً پانچویں صدی عیسوی سے مسیحی دنیا دو بڑی سلطنتوں میں تقسیم ہو چکی تھی، ایک سلطنت مشرق میں تھی جس کا پایہ تخت قسطنطنیہ تھا، جس میں بلقان، یونان، ایشیائے کوچک، شام، مصر اور حبشہ وغیرہ کے علاقے شامل تھے، اور وہاں کا سب سے بڑا مذہبی پیشوا بطریق (Patriarch) کہلاتا تھا اور دوسری بڑی سلطنت مغرب میں تھی جس کا مرکز روم (اٹلی) تھا،

یورپ کا بیشتر علاقہ اسی کے زیر نگیں تھا، یہاں کا مذہبی پیشوا پوپ یا پاپائے اعظم کہلاتا تھا، ان دونوں سلطنتوں میں ہمیشہ سیاسی اختلافات کے علاوہ مذہبی اور فرقہ وارانہ اختلافات بھی رہے ہیں، مغربی سلطنت کا مرکز روم تھا وہ رومن کیتھولک کلیسا فرقے کے نام سے موسوم تھے جبکہ مشرقی سلطنت کوآرتھوڈوکس کلیسیا کے نام جانا جاتا ہے، آیا صوفیا کا چرچ یہ آرتھوڈوکس کلیسا کا عالمی مرکز تھا،فتح قسطنطنیہ کے بعد وہاں مسلمانوں کے نمازکے لئے کوئی مستقل جگہ نہ ہونے کی صورت میں سلطان محمد فاتح نے آرتھوڈوکس کلیسیا کے اس تاریخی مذہبی مرکز کو اپنے ذاتی مال سے خریدکر مسلمانوں کے مصالح کے لیے وقف کر دیا.

بتایا جاتا ہے کہ خرید وفروخت کے دستاویز آج بھی ترکی کے دارالحکومت انقرہ میں موجود ہیں،آیا صوفیا کی عمارت فتح قسطنطنیہ کے بعد سے 481 سال تک مسجد اور مسلمانوں کی عبادت گاہ رہی لیکن سلطنت عثمانیہ کے خاتمہ کے بعد مصطفٰی کمال اتاترک نے مسجد میں نماز بند کرا کے اسے عجائب گھر (Museum) بنا دیاگیا، جولائی 2020ء میں اسے دوبارہ 1935ء سے قبل والی حیثیت دے دی گئی اور تقریبا 84سال بعد 26جولائی کو مسجد کی بحالی کے بعد پہلی بارباجماعت نماز جمعہ ادا کی گئی۔

- Advertisement -
Ad imageAd image


توقع کے خلاف جب ترکی کے صدر رجب طیب اردگان کے زیر قیادت والی ترکی حکومت نے آیا صوفیا کو دوبارہ بطور مسجد بحال کیا تو مغربی دنیا کے سینے پر سانپ لوٹنے لگا بالخصوص عیسائی دنیا کی جانب سے سخت غم و غصے کا اظہار کیا جانے لگا لیکن ترکی کے ثابت قدمی میں تزلزل نہیں آیا، ترکی کے اس اسلام پسندانہ کارروائی کے خلاف فرانس نے اپنے ملک میں موجود اسلامی تعلیمی ادراوں کو بند کرنے کا فرمان جاری کردیا، فرانس نے سوچا تھا کہ شاید اس سے ترکی اپنے عمل سے باز آجائے گا لیکن ترکی کے صدر نے روس کے اٹھائے گئے قدم کافوری جواب دیتے ہوئے ترکی میں چل رہے تمام فرانسیسی اسکول بند کرنے کا حکم صادر کردیاجس کے بعد مجبوراً فرانس نے اپنے اسلامی اداروں کے بند کرنے کا فرمان فوراً واپس لے لیا، بدلے میں ترکی نے بھی فرانسیسی اداروں کو مقفل کرنے کا اپنا حکمنامہ منسوخ قراردیدیا،

آیا صوفیاکے بارے میں صلیبیوں کی جانب سے جھوٹ پھیلاکر ترکی کو بے وجہ بدنام کرنے کی ناکام کوشش کی جارہی ہے جبکہ حقیقت میں آیا صوفیا سے صلیبیوں کا رشتہ اسی وقت ختم ہوگیا تھا جب 1453ء میں انہوں نے کلیسا کو سلطان محمد فاتح کے ہاتھوں فروخت کردیا تھا جو عیسائی رہنماؤں کے نزدیک نہ کل معیوب تھا اور نہ ہی آج.

چنانچہ گذشتہ چندبرسوں کا اگر جائزہ لیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ چرچ یا گرجا گھر کی خرید و فروخت عیسائیت میں کوئی معیوب بات نہیں ہے ابھی حال ہی میں جرمنی میں دعوت اسلامی نے ایک چرچ کو خرید کر مسجد میں تبدیل کیا ہے جبکہ اسلام میں مساجد کے تعلق ایسا ممکن نہیں ہے اسلام میں مساجد کی خرید و فروخت ہر حال میں ناجائز ہے۔
عمل کے رد عمل کو ہی تاریخ کے دوہرائے جانے سے تعبیر کیا جاتاہے جب سے ترکی سے آیا صوفیا مسجد کی بحالی کی خبر منظر عام پر آئی ہے ہندوستان میں بابری مسجد اور رام مندر کے تعلق سے بھی متضاد رائے قائم کی جارہی ہے جس میں ایک رائے یہ ہے کہ رام مندر کی تعمیر بھی تاریخ کے دوہرائے جانے کے مترادف ہے یعنی آیا صوفیاکی طرح رام مندرکی بھی گھر واپسی ہوئی ہے لیکن حقائق یہ بتاتے ہیں کہ رام مندر کی تعمیر سے تاریخ دوہرائی نہیں بلکہ رقم کی جارہی ہے اس کا دوہرایا جانا ابھی باقی ہے

اب رہا سوال کہ یہ کب اور کیسے ممکن ہو سکتا ہے تو اس کے لئے تھوڑی سی دماغی ورزش کے ساتھ ہی اسلام اور سناتن دھرم کے بارے میں معلومات حاصل کرنا ہوگا۔
ہندوستان کی تاریخ اتنی قدیم ہے جتنا کہ اس کائنات پر انسانی تاریخ پرانی ہے ایک روایت کے مطابق دنیا کے پہلے دو انسان آدم و حوا میں سے ایک حضرت آدم علیہ السلام کو سراندیپ (سری لنکا) میں اتارا گیانیز دوسری روایت کے مطابق آدم علیہ السلام کے بیٹے اور اللہ کے نبی حضرت شیث علیہ السلام کی قبر مبارک ہندوستان کے اسی شہر ایودھیا میں واقع ہے جہاں ہندو عقائد کے مطابق سری رام چندر جی نے جنم لیاہے اب تاریخ کے ماہرین سے میرا سوال یہ ہے کہ سری رام چندر جی سے پہلے دنیا میں آئے حضرت شیث علیہ السلام کی تاریخ اگر موجود ہے تو سری رام چندر جی کے جائے پیدائش کا ذکر تاریخ کے پرانی کتابوں میں کیوں نہیں ملتا؟

ہندوستان کی عدلیہ نے بھی اس بات کو تسلیم کیا ہے کہ رام کی جائے پیدائش کے تعلق سے کوئی ٹھوس شواہد نہیں پائے گئے ہیں نیزبابری مسجد کی جگہ پر پہلے سے کسی مندر کا کوئی ثبوت بھی نہیں ہے، بھلے ہی فیصلہ آستھا کی بنیاد پر مندر کے حق میں آیا ہو اور شواہد و حقائق کو درکنار کرکے آیا ہو لیکن اگر اس جگہ پر پہلے سے کوئی مندرنہیں تھاجس کو عدالت پہلے ہی مان چکی ہے تو اس کو تاریخ کادوہرایا جانا نہیں بلکہ تاریخ رقم کرنا ہی کہا جائے گالہذا اب یہ کہا جاسکتا کہ اگر تاریخ خود کو دوہراتی ہے تو بابری مسجد مسئلے میں تاریخ کا دوہرایاجانا ابھی باقی ہے،بابری مسجد کے تعلق سے تاریخ خود کو دوہرائے گی یا نہیں یہ مسئلہ پیچیدہ ضرور ہے لیکن ناقابل اعتبار ہرگز نہیں.

- Advertisement -

حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کی ایک پیشین گوئی ہے”اور جس بات کا مجھے یقین ہے وہ یہ کہ اگرہندوؤں کا ہندوستان پر تسلط محکم اور ہر پہلو کے اعتبار سے ہو جب بھی اللہ کی حکمت کی رو سے یہ واجب اور ضروری ہے کہ ہندوؤں کے سرداروں اور لیڈروں کے دلوں میں یہ الہام کرے کہ وہ دین اسلام کو اپنا مذہب بنا لیں“ اگر بغور جائزہ لیا جائے تو بروقت ہندوستان میں یہ بات روز روشن کی طرح آشکارا ہے کہ ہندوستان فی الوقت مکمل ہنود کے قبضہ و اختیار میں ہے یعنی شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کی پیشین گوئی کا ایک حصہ مکمل ہوچکا ہے.

دوسرا حصہ کب پایہئ تکمیل کو پہنچے گا اس بارے کچھ کہنا قبل از وقت ہوگافی الحال اس پیشین گوئی سے متعلق ایک اور اہم نکتہ کی جانب ذہن کو مبذول کرانا چاہوں گاکہ شاہ ولی اللہ نے یہ پیشین گوئی آخر کن بنیادوں پر کی ہے تو اس ضمن میں حضرت ابوہریرہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سورہئ محمد کی آخری آیت کی تلاوت کی کہ ”اور اگر تم منھ پھیرو تو وہ تمہارے سوا اور لوگ بدل لے گا پھر وہ تم جیسے نہ ہوں گے (ترجمہ کنز الایمان) تو وہاں موجود صحابہ نے پوچھا کہ یا رسول اللہ آخر یہ کون لوگ ہوں گے تب حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کے کندھے پر تھپکی دی اور فرمایا”یہ اور اس کی قوم ہے وہ“ اور قسم ہے اس خدا کی جس کے قبضے میں میری جان ہے اگر ایمان ثریا پر چلاجائے گاتو فارس کے یہ لوگ وہاں تک اسے ڈھونڈتے ہوئے پہنچ جائیں گے“

اسی طرح سورہ مائدہ کی آیت نمبر 54 ترجمہ ”اے ایمان والو! تم میں جو کوئی اپنے دین سے پھرے گا تو عنقریب اللہ ایسے لوگ لائے گا کہ وہ اللہ کے پیارے اور اللہ ان کا پیارا مسلمانوں پر نرم اور کافروں پر سخت، اللہ کی راہ میں لڑیں گے اور کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کا اندیشہ نہ کریں گے، یہ اللہ کا فضل ہے جسے چاہے دے اور اللہ وسعت والا علم والاہے“(کنز الایمان)کے بارے روایت ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو حضرت عمرنے پوچھا کہ یارسول اللہ کیا میں اور میری قوم مراد ہے تو اللہ کے رسول نے ابو موسیٰ الاشعری کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا نہیں بلکہ یہ شخص اور اس کی قوم“

- Advertisement -

اب قابل غور امر یہ ہے کہ حدیث مبارکہ کے مطابق تبدیلیئ مذہب کرنے والی قوم کے تعلق سے بظاہر تضاد پایا جاتا ہے پہلی حدیث میں تبدیلیئ مذہب کا اشارہ سلمان فارسی کے قوم کی طرف ہے جو ایران سے ہیں اور دوسری حدیث کے مطابق جو قوم مذہب تبدیل کرے گی وہ ابوموسیٰ اشعری کی قوم ہے جو یمن سے تعلق رکھتے ہیں دونوں روایتوں میں بظاہر تضاد ہے لیکن حقیقت میں تضاد ہے ہی نہیں تاریخ کا ادنیٰ سا طالب علم بھی یہ بات جانتا ہے کہ شمالی ہندوستان کے قدیم باشندے آریہ یعنی فارس سے آکر آباد ہوئے ہیں نیز جنوبی ہند کے دراوڑ سماج کے بارے میں یہ عام خیال ہے کہ آریہ سماج کے آنے کے بعدبڑی تعداد میں ہندوستان سے نقل مکانی کرکے مشرق وسطیٰ میں آباد ہوگئے آج بھی بین الاقوامی ہوائی سفرکے ادارہ (IATA) کے جانب سے تیار کردہ نقشہ میں مشرق وسطیٰ کے فہرست ممالک میں یمن کو شمار ہوتاہے اب اگر غور کریں گے تو ان دونوں قوموں میں ایک بات مشترک ملے گی کہ یہ دونوں ہی قومیں ہندوستان میں آکر جمع ہوجاتی ہیں،

یہاں ایک اور قابل غور امر یہ ہے کہ دنیا میں جتنے بھی مذاہب صحائف سے منسوب کئے جاتے ہیں ان میں ہر کسی کے پاس آسمانی صحیفے کا پیغامبر موجود ہے مثلاً توریت حضرت موسیٰ، زبور حضرت داؤد، انجیل حضرت عیسیٰ اور قرآن مجید حضرت محمد علیہم السلام سے منسوب ہے لیکن سناتن دھرم کی کتاب ویدوں کے بارے میں آسمانی صحائف ہونے کے دعوؤں کے باجود ان صحائف کے لانے والے پیغامبر کے بارے میں نہ صرف دنیا کو کوئی علم نہیں ہے بلکہ ان کے دھرم گرنتھوں میں بھی اس کا واضح ذکر نہیں ملتا ہے

اس لحاظ سے اگراسلام کا مطالعہ کیا جائے تو بخاری شریف کی حدیث نمبر 4487 اور 7349 میں ذکر ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”قیامت کے دن نوح علیہ السلام کو بلایا جائے گا۔ وہ عرض کریں گے،لبیک وسعدیک یا رب! اللہ رب العزت فرمائے گا، کیا تم نے میرا پیغام پہنچا دیا تھا؟ نوح علیہ السلام عرض کریں گے کہ میں نے پہنچا دیا تھا، پھر ان کی امت سے پوچھا جائے گا، کیا انہوں نے تمہیں میرا پیغام پہنچا دیا تھا؟ وہ لوگ کہیں گے کہ ہمارے یہاں کوئی ڈرانے والا نہیں آیا۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا نوح علیہ السلام سے کہ آپ کے حق میں کوئی گواہی بھی دے سکتا ہے؟ وہ کہیں گے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کی امت میری گواہ ہے۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت ان کے حق میں گواہی دے گی کہ انہوں نے پیغام پہنچا دیا تھا۔ اب یہاں بھی ایک قدر مشترک موجود ہے نوح علیہ السلام کی امت کانبی ان کے علم میں نہیں اور سناتن دھرم کے پیروکار اپنے آسمانی صحیفوں کے لانے والے نبی کو بتاپانے سے قاصر ہیں،

اتنی مشابہت کیا یہ بتانے کے لئے کافی نہیں ہے کہ بہت ممکن ہے نوح علیہ السلام پرنازل کئے گئے صحیفے جن کی معلومات ہم مسلمانوں کو بھی نہیں ہے وہ وید ہوں اور سناتن دھرم کے نہ مل رہے پیغمبر حضرت نوح علیہ السلام ہی ہوں اور قرآن میں یہود ونصاریٰ کے ساتھ جس تیسری بڑی قوم صابئین کا ذکر متعدد بار آیا ہے جس کی تحقیق ہنوز مبہم ہے اس سے مراد یہی لوگ ہوں نیزمذہب تبدیل کرنے والی قوم سلمان فارسی اور ابو موسیٰ اشعری کی قوم ہو جو ہندوستان میں آکر جمع ہوجاتی ہیں یعنی سناتن دھرم کے پیروکار جن کے تبدیلیئ مذہب کا ذکر حدیث میں آیا ہے، ہندوستان میں بڑے پیمانے پر تبدیلیئ مذہب کے آثار اس لئے بھی مزید پختہ ہوجاتے ہیں کہ ہندو سماج بھی جس کالکی اوتار کے انتظار میں بیٹھا ہے جن کے بارے میں ان کا عقیدہ ہے کہ وہ آکر اس سماج کو نجات دلائیں گے اس کا ذکر کرتے ہوئے پروفیسر وید پرکاش اپادھیائے لکھتے ہیں کہ سناتن دھرم کے لوگ جس کالکی اوتار کا انتظار کر رہے ہیں وہ درحقیقت آچکے ہیں اور وہ کوئی اورنہیں بلکہ پیغمبر اسلام حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہی ہیں اور پورے ہندو سماج کو یہ بات تسلیم کرلیناچاہئے کہ ویدوں میں جس نجات دہندہ کی پیشین گوئیاں کی گئی ہیں ان کی مکمل علامتیں پیغمبر محمد صلی اللہ علیہ وسلم میں پائی جاتی ہیں.

ان تمام نشاینوں کے علاوہ حضرت عمروبن شعیب کی روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا”بے شک تمام مخلوقات میں ایمان کے اعتبارسے قوی اور عجیب ترین حقیقتاً ایک قوم ہوگی، وہ میرے بعد ہوں گے، وہ کچھ صحیفے پائیں گے ان(صحائف)میں ”کتاب“ ہے جو کچھ ان صحائف میں ہے اس پروہ ایمان لائیں گے“ شارحین کے مطابق اس حدیث میں کتاب سے مراد ”قرآن“ہے یعنی ان کو ان صحائف میں قرآن نظر آئے گا، اس حدیث سے یہ سمجھا جا سکتا ہے کہ ایک ایسی قوم ہے جو اپنے پرانی مذہبی کتابوں سے اسلام کی روشنی پانے کے بعد اسلا م قبول کرے گی لہذا 5 اگست 2020 ایودھیا میں ممکنہ رام مندر کے سنگ بنیاد اور بھومی پوجن سے مسلمانان ہند کو دل برداشتہ ہونے کی قطعاً ضرورت نہیں ہے بلکہ ضرورت اس بات کہ ہم کیا کریں کہ مستقبل میں اگر ہندوستان میں تبدیلیئ مذہب ہو توہمیں شرمندہ نہ ہونا پڑے۔


فی الحال ہندوستان میں حکومتی سطح پر سنسکرت کی ترقی پر جس قدر زور دیا جارہا ہے اس سے یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ مستقبل میں ویدوں پر مزید تحقیقات منظر عام پر آسکتی ہیں نیز گذشتہ چند برسوں میں ملک میں اسلاموفوبیا جس تیزی سے پھیل رہا ہے اس سے بھی مزید تقویت ملتی ہے کہ آنے والے ایام میں اسلام کے متعلق عوام میں تجسس پیدا ہونا فطری عمل ہوگا کیونکہ امریکی ورلڈٹریڈ سینٹرپر دہشت گردانہ حملے کے بعد جس تیزی سے اسلاموفوبیا میں اضافہ ہوا تھا اس سے کہیں زیادہ سرعت رفتاری کے ساتھ اسلام اور قرآن پر تحقیقات نے جنم لے لیا اور تاحال امریکہ اور یورپ میں لوگ اسلامی تعلیمات سے متاثر ہو کر حلقہ بگوش اسلام ہو رہے ہیں،

اب اگر مستقبل میں متوقع تبدیلیئ مذہب ہوتا ہے تومسلمانان ہند کا اس میں کیا رول ہونا چاہئے تاکہ انہیں تبدیلیئ مذہب کرنے والی قوم کے سامنے ندامت کا سامنا نہ کرنا پڑے، جس کے لئے مسلمانوں کو تعلیمی، اخلاقی، سیاسی، مذہبی اور اقتصادی محاذپر نمایاں کارکردگی کا مظاہرہ کرنا ہوگا، مسلکی اختلافات کے باوجود ایک متحدقوم کے طور پر خود کوپیش کیا جائے، غیر ضروری امور پر فتویٰ بازی سے توبہ کی جائے، مختلف مسالک کے درمیان باہمی مواخات و ملاقات کو کفر سے تعبیر کرنے پر قدغن لگائی جائے، ہر عمل کے عوض میں ایک دوسرے مسلک والے کو کافرو مشرک کہنے کی عادت ترک کرنا ہی ملی اور قومی مفاد میں ہوگا،

بڑی بڑی باتیں کرنے میں تو مہارت تامہ حاصل ہے لیکن زمینی سطح پر کام کرنے سے کوسو دور ہیں،ہر مسئلے کا حل منٹوں اور سیکنڈوں میں نہ چاہ کر لانگ ٹائم لائحہ عمل پر عمل کرتے ہوئے قانون کا سہارا لیکر مسائل کا حل تلاش کریں، سیاسی طور پر ہمارا المیہ یہ ہے کہ کوئی مسلم رہنما کسی دوسرے مسلک والوں کے پاس چلا جائے تو ہمیں وہ کافر اور دلال نظر آنے لگتا ہے ایک بات ذہن میں بٹھا لیجیے کہ آپ اپنی حدود میں ہی کام کر سکتے ہیں اس لیے آپ اپنی حدود پہچانیے اور وہی کام کیجیے جو آپ کے لائق ہیں، جذبات میں اٹھایا گیا کوئی بھی قدم پوری ملت اسلامیہ ہند کے لئے پریشانی کا سبب بن سکتاہے اور اگر ہم نے اپنے آپ کو حالات اور تقاضوں کے مطابق استوار کرنے میں کامیابی حاصل کر لی تو انشاء اللہ وہ دن دور نہیں جب بابری مسجد کو مسمار کرنے والی قوم ہی اس کی تعمیر نو میں ہم زیادہ فعال اور سرگرم کردار ادا کرے گی اورحقیقت میں ایودھیا کی تاریخ دوہرائی جائے گی۔

0Like
0Dislike
50% LikesVS
50% Dislikes

You Might Also Like

مخلص نہیں کوئی بھی اردو زبان کا؟

نفرتی ایجنڈے پر مجرمانہ خاموشی، مسلمانوں کی جان اتنی سستی کیوں؟

گرمی کی شدت: فطرت کا بپھرا ہوا انتباہ

تنوج پُنیا کی اویس انصاری کے گھر آمد، عوامی مسائل اور ترقی پر ہوئی گفتگو

معاشرتی ترقی کے تقاضے، اور بھارتی مسلمان

TAGGED:6decemberbabri masjidblack dayram mandirایودھیابابری مسجدبابری مسجد کی تاریخ خود کو دوہرائے گیبابری مسجد کی شہادت
Share This Article
Facebook Twitter Whatsapp Whatsapp LinkedIn Telegram Email Copy Link Print
Previous Article تحفظ ختم نبوتؐ و عظمت صحابہ کانفرنس کی کامیابی پر حافظ عبد القدوس ہادی کا اظہار تشکر
Next Article لاؤڈ اسپیکر کے حوالے سے واضح گائڈ لائن جاری کرکے کنفیوزن کو دور کیا جائے: امین الحق عبداللہ قاسمی
Leave a review

Leave a review جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Please select a rating!

محمد ذیشان اور ابوشحمہ انصاری نے دی عیدالاضحی کی مبارکباد
بزمِ مدنی کے زیرِ اہتمام یادِ مائل میں سجی چراغوں جیسی شعری شام
مصنف و ادیب مفتی شعیب رضا نظامی فیضی کو "امام احمد رضا ایوارڈ” تفویض
قربانی خلوص و تقویٰ کا مظہر: مولانا شان محمد جامعی
مخلص نہیں کوئی بھی اردو زبان کا؟

Advertise

ہمارا موبائل اپلیکیشن ڈاؤن لوڈ کریں

NewsG24بھارت میں پروپیگنڈہ خبروں کے خلاف ایک مہم ہے، جو انصاف اور سچائی پر یقین رکھتی ہے، آپ کی محبت اور پیار ہماری طاقت ہے!
© NewsG24 Urdu. All Rights Reserved.
  • About Us
  • TERMS AND CONDITIONS
  • Refund policy
  • سپورٹ کریں
  • Privacy Policy
  • پیام شعیب الاولیاء
  • Contact us
Welcome Back!

Sign in to your account

Lost your password?