اجتماع میں خواتین اسلام سے معلمات کا خطاب
بلرامپور:تعلیم یافتہ عورت ہی صالح معاشرہ کی بنیاد ہے ان خیالات کا اظہار جامعہ رابعہ بصریہ نسواں میں ایک روزہ ذکر بتول رضی اللہ تعالیٰ عنہا کانفرنس میں کیا گیا۔ جس کی صدارت محترمہ ناظرین فاطمہ سلطانی پرنسپل جامعہ ہذا نے فرمائی۔ محترمہ شمسیہ فاطمہ کی تلاوت کلام پاک سے ذکر بتول کانفرنس کا آغاز ہوا۔ نقابت کے فرائض محترمہ آرزو فاطمہ رحمانی نے انجام دیا ۔
محترمہ رافعہ فاطمہ، محترمہ عائشہ رضوی رائے بریلی، عالمہ محترمہ منتشاء فاطمہ سدھارتھ نگر، محترمہ صائمہ رضوی بشمبھر پور وغیرہ نے اپنے اپنے خوبصورت لب ولہجہ میں نعت رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم سے محفل میں سماں باندھا۔
خصوصی مقررہ کی حیثیت سے محترمہ نجمہ قادری واپی گجرات کا تعلیم وتربیت و اصلاح خواتین پر شاندار خطاب ہوا۔ آپ نے کہا کہ ماں کی گود بچوں کے لیے پہلا مکتب ہوتا ہے، اگر ماں ہی تعلیم یافتہ عورت نہ ہوتو اندازہ کرنا مشکل نہیں کہ بچے پر کیا اثرات پڑیں گے، آج خواتین کو قرآن وحدیث کے مطالعہ کی فرصت نہیں ہے نتیجتاً وہ اپنے بچوں کے لیے بھی اس حوالے سے متفکر نہیں ہوتیں، عورتوں کا بہت بڑا طبقہ ایسا ملے گا، جسے سیرتِ رسول کی موٹی موٹی باتیں بھی معلوم نہیں، طہارت وعبادت بالخصوص نماز کی بجا آوری تو دور کی بات، ان کے مسائل سے تشویش ناک حد تک ناواقفیت ہے، حقوقِ والدین، حقوقِ زوج اور دیگر چھوٹے بڑے افرادِ خانہ کے حقوق سے غفلت روز افزوں ہے، نوبت بایں جا رسید کہ ٹھوس اسلامی تعلیمات سے دوری نے مسلم خواتین کو یہ منفی سبق پڑھایا کہ پردہ، آزادیِ نسواں کے لیے سدِّ راہ ہے اور نام نہاد ترقی کا دشمن ہے اور اس کا چراغِ خانہ ہونا قدامت پسندی ہے، اسے جدیدیت کا لبادہ اوڑھ کر شمعِ محفل بن جانا چاہیے۔
مضبوط دینی تعلیمات سے لاعلمی نے ساس بہو کے جھگڑے پیدا کردیے، دینی تعلیمات سے اجتناب نے طلاق کی شرح میں اضافہ کردیا، دینی تعلیمات سے بیگانگی نے بڑے بوڑھوں کی خدمت کو کارِ ثواب کے بجائے کارِ زحمت بنادیا، بقدرِ ضرورت دینی تعلیمات سے بُعد اور مغربی تعلیمات سے قرب نے مسلمان خواتین کو امورِ خانہ داری انجام دینے کے بجائے، آفس، ہوٹلوں اور ہسپتالوں میں رسپشن کی زینت بنادیا۔
دینی تعلیمات سے صرفِ نظری نے پڑوسیوں کے حقوق کی ادائیگی کے بدلے، لڑائی جھگڑے کے طور طریقے سکھلادیے۔ الغرض اسلامی زندگی کے جس موڑ پر آپ اسلامی روح کو تڑپتے ہوئے دیکھیں گے، اس کا نتیجہ دینی تعلیمات کا زندگی میں، نہ ہونا پائیں گے، ڈاکٹر اقبال نے کہا تھا
”وجودِ زن سے ہے تصویرِ کائنات میں رنگ“
اس سے کیسا وجود مراد ہے، کیا اسلامی اور دینی تعلیمات کی روح سے یکسر خالی مغربی وجودِ زن؟
آج ہر طرف عصری اور مغربی علوم کا غلغلہ ہے، اسلام اس کی راہ میں حائل نہیں ہوتا؛ ہاں! مگر اتنی بات ضرور ہے کہ دینی تعلیم کو فراموش کرکے، عصری تعلیم میں بالکلیہ لگ جانا، اسلام کو پسند نہیں، اسلام اسے قابل اصلاح سمجھتا ہے۔اس لئے ضروری ہے کہ ہم اپنی بچیوں کو دینی تعلیم ضرور دلائیں۔
ان کے علاوہ محترمہ شمع فاطمہ، محترمہ شیبا نظامی معینی متھرا نے بڑی ہی نصیحت آمیز اور ذہن و فکر میں جگہ بنانے والی باتیں کہیں۔
آپ نے کہا کہ تمام خواتین اسلام کا دینی قومی مذہبی ملی فریضہ ہے کہ ہم بہترین معاشرے کی تشکیل میں کردار ادا کرنے میں اہم رول ادا کریں جس سے ہمارا معاشرہ امن و سکون کا گہوارہ بن سکے۔ خطیبہ شاعرہ معلمات کے علاوہ ذکر بتول کانفرنس کی حمایت، محترمہ حرا فاطمہ، محترمہ ضویا فاطمہ، محترمہ رابعہ فاطمہ نے احسن طور سے انجام دیا۔
تمام معلمین و متعلمات نے مشترکہ طور پر اپیل کی کہ ہم تمام مسلمان اپنی بیٹیوں کو تعلیم یافتہ بنانے پر خاص کر توجہ دیں گی۔
[…] ضلع سدھارتھ نگر تک سفر کافی دلچسپ اور یادگار تھا، تعلیم پوری کرنے کے بعد یہ میرا پہلا سفر تھا۔ زبان اور طرز […]