By using this site, you agree to the Privacy Policy and Terms of Us
Accept
NewsG24UrduNewsG24UrduNewsG24Urdu
  • سرورق
  • آج کل
  • سیاست
  • عالمی خبریں
  • سپورٹ کریں
  • Hindi
Search
  • اتصل
  • مقالات
  • شكوى
  • يعلن
© NewsG24 Urdu. All Rights Reserved.
Reading: مختصر سیرت مصطفیٰ جان رحمت ﷺ
Share
Notification Show More
Font ResizerAa
NewsG24UrduNewsG24Urdu
Font ResizerAa
  • سرورق
  • آج کل
  • سیاست
  • عالمی خبریں
  • سپورٹ کریں
  • Hindi
Search
  • سرورق
  • آج کل
  • سیاست
  • عالمی خبریں
  • سپورٹ کریں
  • Hindi
Have an existing account? Sign In
Follow US
NewsG24Urdu > Blog > مضامین > مختصر سیرت مصطفیٰ جان رحمت ﷺ
مضامین

مختصر سیرت مصطفیٰ جان رحمت ﷺ

Last updated: ستمبر 5, 2025 5:09 صبح
newsg24urdu 2 مہینے ago
مختصر سیرت مصطفیٰ جان رحمت ﷺ
مختصر سیرت مصطفیٰ جان رحمت ﷺ
SHARE

تحریر کردہ: (مولانا) محمد عثمان علیمیؔ خطیب و امام سنی رضا جامع مسجد نگر پنچایت اٹوا بازار

نام ونسب: آپﷺ کا نامِ نامی اسمِ گرامی ’’محمد‘‘ ہے۔ دیگر آسمانی کتابوں میں آپ کا نام ’’احمد‘‘ مذکورہے جبکہ آپ کےسینکڑوں صفاتی نام بھی ہیں جن میں سے بعض یہ ہیں : ’’مزّمّل، مُدّثّر، رَءُوف، رَحِیم، مُصطفٰے، مجتبیٰ، مرتضیٰ‘‘ وغیرہ۔


آپ کی کنیت ابوالقاسم ہے۔ آپ قبیلۂ قریش کےایک اعلیٰ خاندان بنو ہاشم سے تعلّق رکھتے تھے ، والد ماجد کا نام حضرت عبداللہ اور والدہ کا نام حضرت آمِنہ ہے، جبکہ دادا کا نام عبدالمطلب اور دادی کا نام فاطمہ بنت عمرو ہے۔ نانا کا نام وہب بن عبد مناف اور نانی کا نام برَّہ بنت عبدالعزیٰ ہے۔ والد کی طرف سے نسب یوں ہے: حضرت محمدﷺ بن عبداللہ بن عبد المطلب بِن ہاشِم بن عبدِمَناف بِن قُصَی بِن کِلاب بِن مُرّہ۔ والدہ کی طرف سے نسب یوں ہے: حضرت محمدﷺ بِن آمِنہ بنتِ وَہب بن عبدِ مَناف بِن زُہرہ بِن کِلاب بِن مُرّہ۔


ولادت باسعادت و پرورش: مشہور قول کے مطابق آپﷺ واقعۂ فیل سے پچپن دن کے بعد 12ربیع الاول بروز پیر مطابق 20 اپریل571ء کو مکہ شریف میں پیدا ہوئے۔


سب سے پہلے آپ ﷺ نے ابو لہب کی لونڈی حضرت "ثویبہ” کا دودھ نوش فرمایا۔ پھر اپنی والدہ ماجدہ حضرت آمنہ کے دودھ سے سیراب ہوتے رہے۔ پھر حضرت حلیمہ سعدیہ آپ کو اپنے ساتھ لے گئیں اور آپ کو دودھ پلاتی رہیں اور انہیں کے پاس آپ کے دودھ پینے کا زمانہ گزرا۔

- Advertisement -
Ad imageAd image


آپ ﷺکی ولادت سے پہلے ہی والدِ ماجد کا انتقال ہوگیا۔ اور جب عمر مُبَارک تقریباً 6 سال کی ہوئی تو والدہ ماجد آپ کو ساتھ لے کر مدینہ منورہ تشریف لے گئیں واپسی پر مقام "ابوا” میں والدہ بھی وصال فرماگئیں۔ اب آپ کی پرورش دادا جان حضرت عبدُالمُطّلب رضی اللہ تعالٰی عنہ نے کی، اور جب آپ ﷺ کی عمر مبارک 8 سال کی ہوئی تو دو سال کے بعد دادا جان بھی پردہ فرماگئے اور پرورش کی ذمّہ داری آپ کے چچا ابوطالِب نے سنبھالی۔


بچپن مبارک: آپ ﷺ کو فرشتے بچپن میں جھولا جھلاتے۔ اور آپ چاند کی طرف انگلی اٹھا کر اشارہ فرماتے تو چاند انگلی کے اشاروں پر حرکت کرتا تھا۔ جب آپ کی زبان کھلی تو سب سے اول جو کلام آپ کی زبان مبارک سے نکلا وہ یہ تھا: "اللہ اکبر اللہ اکبر الحمدللہ رب العالمین و سبحان اللہ بکرۃ واصیلا”۔ آپ نے کپڑوں میں کبھی بول و براز نہیں کیا بلکہ ہمیشہ ایک معین وقت پر رفع حاجت فرماتے۔ آپ باہر نکل کر بچوں کو کھیلتے ہوئے دیکھتے مگر خود کھیل کود میں شریک نہیں ہوتے۔ لڑکے آپ کو کھیلنے کے لیے بلاتے تو آپ فرماتے کہ میں کھیلنے کے لیے پیدا نہیں کیا گیا ہوں۔
جوانی اور ملک شام کا سفر: آپ ﷺکی جوانی سچائی ، دیانتداری ، وفاداری ، عہدکی پابندی ، رحم وسخاوت ، دوستوں سے ہمدردی ، عزیزوں کی غمخواری ، غریبوں اورمفلسوں کی خبرگیری ، الغرض تمام نیک خصلتوں کا مجموعہ تھی۔ تمام بری عادتوں ، مذموم خصلتوں اور ہر طرح کے عیوب ونقائص سے آپ کی ذاتِ گرامی پاک وصاف رہی۔


جب آپﷺ کی عمر شریف 12 برس کی ہوئی تو اس وقت ابو طالب نے تجارت کی غرض سے ملک شام کا سفر کیا۔ آپﷺ نے اعلان نبوت سے پہلے تین بار تجارتی سفر فرمائے: دو مرتبہ ملک شام گئے اور ایک بار یمن تشریف لے گئے۔ یہ ملک شام کا پہلا سفر ہے، اس سفر کے دوران بُصریٰ میں بحیرا راہب (عیسائی پادری) کے پاس آپ کا قیام ہوا، اس نے تورات و انجیل میں بیان کی ہوئی نبی آخر الزماں کی نشانیوں سے آپ کو دیکھتے ہی پہچان لیا اور بہت عقیدت و احترام کے ساتھ اس نے آپ کے قافلے والوں کی دعوت کی۔

چلتے وقت انتہائی عقیدت کے ساتھ آپ کو سفر کا کچھ توشہ بھی دیا۔ 23 سال کی عمر میں بغرضِ تجارت حضرتِ خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا مال لے کر اُن کے غلام مَیْسَرہ کے ساتھ ملکِ شام کا دوسرا سفر اختیارکیا۔


نکاح اور ازواج مطہرات: آپ ﷺ نے جن ازواج مطہرات سے نکاح فرمائے ان کی تعداد 11 ہے جن میں سے 6 ازواج قرشیہ ہیں۔ 4 غیر قرشیہ ہیں اور ایک (حضرت صفیہ بت حی بن اخطب) اسرائیلیہ ہیں۔ جو خاندان بنی اسرائیل کی ایک شریف النسب رئیس زادی تھی۔ آپﷺ نے سب سے پہلے حضرت خدیجۃ الکبری رضی اللہ عنہا سے نکاح فرمایا اور جب تک وہ زندہ رہیں آپ نے کسی دوسری عورت سے عقد نہیں فرمایا۔

- Advertisement -


آپ ﷺ کی 11 اَزواجِ مُطَہَّرَات کے اَسمائے گرامی یہ ہیں: (1)حضرتِ خدیجۃُ الکبریٰ بنت خویلد (2)حضرتِ سَودَہ بنت زمعہ (3)حضرتِ عائشہ بنت ابو بکر (4) حضرتِ حَفْصہ بنت عمر فاروق (5)حضرتِ اُمِّ سَلمہ بنت ابو امیہ (6)حضرتِ اُمِّ حبیبہ بنت ابو سفیان (7)حضرتِ زینب بنتِ جَحش (8)حضرتِ زینب بنتِ خُزیمہ (9) حضرت میمونہ بنت حارث (10)حضرتِ جُویریہ بنت حارث (11) حضرتِ صَفِیّہ بنت حی بن اخطب رضی اللہ تعالٰی عَنْہُنَّ۔ آپ ﷺ کی ایک زوجہ حضرت عائشہ کنواری تھیں۔ اور حضرت زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا مطلقہ تھیں۔ باقی 9 ازواج بیوہ تھیں۔


مقدس باندیاں: آپ کی تین باندیوں کے نام یہ ہیں : (1)حضرتِ مارِیہ قبطِیَّہ (2) حضرتِ رَیحانہ (3)حضرتِ نفیسہ رضی اللہ تعالٰی عَنْہُنَّ۔ مؤرخین نے آپ ﷺ کی ایک چوتھی باندی کا بھی ذکر فرمایا ہے جن کا نام غیر معلوم ہے۔


اولادکرام: آپﷺ کے تین شہزادے : (1) حضرت قاسم (2) حضرت عبدُاللہ (طیب وطاہر) (3) حضرت ابراہیم رضی اللہ تعالٰی عنہم اور چارشہزادیاں ہیں: (1)حضرتِ زینب (2) حضرتِ رُقیّہ (3)حضرتِ اُمّ کُلثوم (4)حضرتِ فاطمۃُ الزّہراء رضی اللہ تعالٰی عَنْہُنَّ۔ آپ کی تمام اولاد مبارک حضرتِ خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے ہوئیں البتہ حضرتِ ابراہیم رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرتِ ماریہ قبطیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے شکم مبارک سے پیدا ہوئے۔

- Advertisement -


چچاؤں کی تعداد: آپﷺ کے چچاؤں کی تعداد میں مؤرخین کا اختلاف ہے بعض کے نزدیک ان کی تعداد 9 ہے بعض نے کہا کہ 10 اور بعض کا قول ہے کہ 11۔ مگر صاحب مواہب لدنیہ نے "ذخیر العقبہ فی مناقب ذوی القربی” سے نقل کرتے ہوئے تحریر فرمایا کہ آپ کے والد ماجد حضرت عبداللہ کے علاوہ حضرت عبدالمطلب کے 12 بیٹے تھے جن کے نام یہ ہیں: حارث، ابو طالب، زبیر، حمزہ، عباس، ابو لہب، غذاق، مقوِّم ضرار، قثم، عبدالکعبہ اور جحل۔


پھوپھیاں: آپﷺ کی پھوپھیوں کی تعداد 6 ہے جن کے نام یہ ہیں: عاتکہ، امیمہ ام حکیم، برہ، صفیہ اور ارویٰ۔


خدام خاص: حضرت انس بن مالک، حضرت ربیعہ بن کعب اسلمی، حضرت ایمن بن ام یمن، حضرت عبداللہ بن مسعود، حضرت عقبہ بن عامر حضرت اسلع بن شریک، حضرت ابوذر غفاری، حضرت مہاجر مولیٰ ام سلمہ، حضرت حنین مولیٰ عباس، حضرت نعیم بن ربیعہ اسلمی، حضرت ابو الحمراء، حضرت ابو اسمع۔


کاتبین وحی: جو صحابہ کرام قرآن پاک کی نازل ہونے والی آیتوں اور دوسری خاص تحریروں کو حضور اقدسﷺ کے حکم کے مطابق لکھا کرتے تھے ان معتمد کاتبوں میں خاص طور پر مندرجہ ذیل حضرات قابل ذکر ہیں۔حضرت ابوبکر صدیق، حضرت عمر فاروق، حضرت عثمان غنی، حضرت علی مرتضی، حضرت طلحہ بن عبید اللہ، حضرت سعد بن ابی وقاص، حضرت زبیر بن العوام، حضرت عامر بن فہیر، حضرت ثابت بن قیس، حضرت حنظلہ بن ربیع، حضرت زید بن ثابت، حضرت ابی بن کعب، حضرت امیر معاویہ، حضرت ابو سفیان رضی اللہ تعالی عنہم اجمعین۔


دربار نبوت کے خصوصی شعراء کرام: حضرت کعب بن مالک انصاری سلمی، حضرت عبداللہ بن رواحہ انصاری خزرجی، حضرت حسان بن ثابت رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین۔


خصوصی مؤذنین: حضور اقدسﷺ کے خصوصی مؤذنین کی تعداد چار ہے۔ حضرت بلال بن رباح۔حضرت عبداللہ ابن مکتوم یہ دونوں حضرات مدینہ منورہ میں مسجدنبوی کے مؤذن تھے۔ حضرت سعد بن عائذ، یہ مسجد قبا کے مؤذن تھے۔ حضرت ابو محذورہ، یہ مکہ مکرمہ کی مسجد حرام کے مؤذن تھے۔ رضی اللہ عنہم اجمعین۔


عبادت وریاضت اور وحی اول: 40 سال کی عمر میں آپﷺ مکۂ مکرمہ سے تقریباً تین میل دور غارِحرا میں تشریف لے جاتے اور رب تعالیٰ کی عبادت میں مشغول رہتے۔ یہیں آپ پر پہلی وحی کا نزول ہوا ۔

اعلانِ نبوت اور دعوتِ اسلام کےتین دور: چالیس سال کی عمر میں آپ نے اعلانِ نُبوّت فرمایا۔ اور اسلام کی دعوت کا آغاز فرمایا۔


پہلا دور: تین برس تک حضور اقدسﷺ انتہائی پوشیدہ طور پر تبلیغ اسلام کا فرض ادا فرماتے رہے اور اس درمیان میں عورتوں میں سب سے پہلے حضرت بی بی خدیجہ رضی اللہ تعالی عنہا اور آزاد مردوں میں سب سے پہلے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ اور لڑکوں میں سب سے پہلے حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ اور غلاموں میں سب سے پہلے حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ تعالی عنہ ایمان لائے۔ حضرت ابوبکر صدیق کی دعوت و تبلیغ سے حضرت عثمان، حضرت زبیر بن العوام، حضرت عبدالرحمن بن عوف حضرت سعد بن ابی وقاص، حضرت طلحہ بن عبید اللہ بھی جلد ہی دامن اسلام میں آگئے۔

پھر چند دنوں کے بعد حضرت ابو عبیدہ بن جراح، حضرت ابو سلمہ عبداللہ بن عبدالاسد، اور حضرت ارقم ابن ارقم، حضرت عثمان بن مظعون اور ان کے دونوں بھائی حضرت قدامہ اور حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہما بھی اسلام میں داخل ہو گئے۔ پھر کچھ مدت کے بعد حضرت ابوذر غفاری، حضرت صہیب رومی، حضرت عبید اللہ بن حارث، سعید بن زید اور ان کی بیوی فاطمہ بنت خطاب حضرت عمر کی بہن نے بھی اسلام کو قبول کر لیا اور حضور کی چچی حضرت ام الفضل بنت ابو طالب بن عبدالمطلب کی بیوی اور حضرت اسماء بنت ابو بکر بھی مسلمان ہو گئیں۔


دوسرا دور: تین برس کی اس خفیہ دعوت اسلام میں مسلمانوں کی جماعت تیار ہو گئی اس کے بعد اللہ تعالی نے اپنے حبیب پر سورہ شعراء کی آیت نازل فرمائی کہ "اے محبوب! آپ اپنے قریبی خاندان والوں کو خدا سے ڈرائے”۔ تو حضور نے ایک دن کوہ صفا کی چوٹی پر چڑھ کر قریش کو عذاب الہی سے ڈرایا تو تمام قریش کے لوگ سخت ناراض ہو کر چلے گئے اور حضور کی شان میں اول فول بکنے لگے۔

تیسرا دور: اب وہ وقت آگیا کہ اللّٰہ رب العزت نے فرمایا اے محبوب! آپ کو جو حکم دیا گیا ہے اس کو علی الاعلان بیان فرمائیے۔ چنانچہ آپ اعلانیہ طور پر دین اسلام کی تبلیغ فرمانے لگے اور شرک و بت پرستی کی کھلم کھلا برائی فرمانے لگے تو تمام قریش بلکہ تمام اہل مکہ بلکہ پورا عرب آپ کا جانی دشمن ہوگیا اور حضورﷺ اور مسلمانوں کی ایذا رسانیوں کا ایک طوفان شروع ہوگیا۔


بانئ اسلام و مسلمانوں پر مظالم: سب سے پہلے تو کفار مکہ آپ کے کاہن، ساحر، مجنون ہونے کا پروپیگنڈا کرنے لگے۔ آپ کے پیچھے شریر لڑکوں کو لگا دیا جو آپ پر بھپتیاں کستے، گالیاں دیتے، آپ کے اوپر پتھر پھینکتے۔ کفار آپ کے راستے میں کانٹے بچھاتے۔ ایک مرتبہ آپ حرم کعبہ میں نماز پڑھ رہے تھے کہ عقبہ بن ابی معیط نے آپ کے گلے میں چادر کا پھندہ ڈال کر اس زور سے کھینچا کہ آپ کا دم گھٹنے لگا۔ ایک مرتبہ حرم کعبہ میں عین حالت نماز میں ابوجہل کے کہنے پر اونٹ کی اوجھڑی لا کر سجدہ کی حالت میں آپ کے کندھوں پر رکھ دی گئی۔ شعب ابی طالب میں 3 سال تک محصور رکھا گیا۔


صحرائے عرب کی تیز دھوپ میں جبکہ وہاں کی ریت کے ذرات تنور کی طرح گرم ہو جاتے۔ مسلمانوں کی پشت کو کوڑوں کی مار سے زخمی کر کے جلتی ہوئی ریت پر پیٹھ کے بل لٹاتے اور سینوں پر اتنا بھاری پتھر رکھ دیتے کہ وہ کروٹ نہ بدل پائیں۔ لوہے کو آگ میں گرم کر کے ان سے مسلمانوں کو داغتے۔ پانی میں اس قدر ڈوبکیاں دیتے کہ ان کا دم گھٹنے لگتا۔

چٹائیوں میں مسلمانوں کو لپیٹ کر ان کی ناکوں میں دھواں دیتے جس سے سانس لینا مشکل ہو جاتا اور وہ کرب و بے چینی سے بدحواس ہو جاتے۔ غرضیکہ حضور رحمت عالمﷺ کے ساتھ ساتھ غریب مسلمانوں پر بھی کفار مکہ نے ایسے ایسے ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے کی مکہ کی زمین بلبلا اٹھی۔


ہجرت مدینہ منورہ: اعلانِ نبوت کے 13ویں سال آپﷺ نے مسلمانوں کو ہجرت کر کے لئے مدینۂ منورہ جانے کی اجازت عطا فرمائی اور بعد میں حضرتِ سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ خود بھی ہجرت کرکے وہاں تشریف لے گئے۔

مدنی زندگی کے 11سال اور ہجرت مدینہ کے چند اہم واقعات:

پہلا سال: مسجد قبا اور مسجد نبوی کی تعمیر عمل میں آئی۔ قبیلۂ بنی سالم کی مسجد میں پہلا جمعہ ادا فرمایا۔ اَذان واِقامت کی ابتدا ہوئی۔ انصار و مہاجرین میں رشتۂ اخوت قائم فرمایا۔ نماز کی رکعتوں میں اضافہ ہوا۔ سلمان فارسی مشرف باسلام ہوئے۔


دوسرا سال: تحویل قبلہ ہوئی۔ جنگ بدر کا معرکہ پیش آیا۔ روزہ اور زکوۃ کی فرضیت کے احکام نازل ہوئے۔ نمازِ عیدین و قربانی کا حکم دیاگیا۔ حضرت فاطمہ زہرہ اور حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہما کا نکاح ہوا۔


تیسرا سال: کفّار کے ساتھ غزوۂ اُحُد کا معرکہ درپیش آیا۔ حضرت امام حسن کی پیدائش ہوئی۔ حضورﷺ نے حضرت بی بی حفصہ سے نکاح فرمایا۔ میراث کے احکام و قوانین بھی نازل ہوئے۔


چوتھا سال: حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ولادت ہوئی۔ آپﷺ نے حضرتِ اُمِّ سَلمہ اور حضرتِ زینب بنتِ جَحش رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے نکاح فرمایا۔ بیر معونہ کا واقعہ پیش آیا۔ بعض مؤرخین کے نزدیک شراب کی حرمت کا حکم بھی اسی سال نازل ہوا۔


پانچواں سال: آپﷺ نے حضرت بی بی جویریہ سے نکاح فرمایا۔ غزوہ خندق اور غزوہ بنی مصطلق واقع ہوئے۔ مسلمان عورتوں پر پردہ فرض کیا گیا۔ آیت تیمم نازل ہوئی۔ اسی سال صلاۃ الخوف کا حکم نازل ہوا۔


چھٹا سال: صلح حدیبیہ اور بیعت رضوان واقع فرمائے۔ آپﷺ نے سلاطین کے نام دعوت اسلام کے خطوط روانہ فرمائے۔ نجاشی بادشاہ نے قبول اسلام کیا جس کا نام "اصمحہ” تھا۔ آپ پر جادو کیا گیا اور اس کے توڑ کیلئے سورۂ فلق وسورۂ نَاس نازل ہوئیں۔

ساتواں سال: غزوۂ خیبر اور غزوۂ ذاتُ الرّقاع واقع ہوئے۔ آپﷺ نے حضرتِ اُمِّ حبیبہ، حضرتِ صَفیہ اورحضرتِ میمونہ رضی اللہ تعالیٰ عنہن سے نکاح فرمایا۔

آٹھواں سال: جنگ موتہ اور جنگ حنین واقع ہوئے۔ مکہ مکرمہ فتح ہوا۔ اسی سال حضور کے فرزند حضرت ابراہیم رضی اللہ عنہ پیدا ہوئے۔ مسجد نبوی میں منبر شریف رکھا گیا۔


نواں سال: مختلف وُفود کی بارگاہِ رِسالتﷺ میں حاضِری ہوئی۔ غزوۂ تبوک واقع ہوا۔ حج کی فرضیت کا حکم نازل ہوا۔

دسواں سال: اسی سال آپ نے حج ادا فرمایا جسے "حجۃُ الوداع” کہا جاتا ہے۔


گیارہواں سال: آپﷺ نےلشکر اسامہ کی روانگی کا حکم فرمایا۔ اسی سال 12 ربیع الاول بروز دوشنبہ مطابق 12جون 632 عیسوی کو 63 سال کی عمر میں آپﷺ کا وِصال ظاہری ہوا۔ اور حجرۂ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا میں تدفین ہوئی۔

0Like
0Dislike
50% LikesVS
50% Dislikes

You Might Also Like

اللہ تمہیں کچھ کیوں نہیں دے رہا؟

شخص نہیں شخصیت ہیں، ڈاکٹر عمار رضوی

بریلی سانحہ: کیا زمانے میں پَنپنے کی یہی باتیں ہیں؟

کتاب سنیمائی چہرے: ایک فکری اور تہذیبی مطالعہ

علم و خدمت کا عہد ساز رہنما: مولانا سراج احمد قمر

TAGGED:جشن عید میلادالنبیسیرت النبیسیرت رسولعید میلادالنبی
Share This Article
Facebook Twitter Whatsapp Whatsapp LinkedIn Telegram Email Copy Link Print
Previous Article ایشیاء کا سب سے بڑا جلوس، تاریخی پس منظر
Next Article جلوس محمدی: قیادت چھوڑ فرار ہوگئے علماء جلوس محمدی: قیادت چھوڑ فرار ہوگئے علماء
Leave a review

Leave a review جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Please select a rating!

دین کا حقیقی مطلب مکمل دستور حیات ہے
ڈاکٹر سمیرہ قیوم کو سر سید ایوارڈ سے نوازا گیا
امین الحق عبداللہ قاسمی جمعیۃ علماء اترپردیش کے ناظمِ اعلیٰ منتخب
نفرت کی سیاست وقتی ہوتی ہے، لیکن محبت کی طاقت دائمی ہے: مولانا ارشد مدنی
جمعیۃ علماء کی ووٹر بیداری مہم کا آغاز

Advertise

ہمارا موبائل اپلیکیشن ڈاؤن لوڈ کریں

NewsG24بھارت میں پروپیگنڈہ خبروں کے خلاف ایک مہم ہے، جو انصاف اور سچائی پر یقین رکھتی ہے، آپ کی محبت اور پیار ہماری طاقت ہے!
© NewsG24 Urdu. All Rights Reserved.
  • About Us
  • TERMS AND CONDITIONS
  • Refund policy
  • سپورٹ کریں
  • Privacy Policy
  • پیام شعیب الاولیاء
  • Contact us
Welcome Back!

Sign in to your account

Lost your password?