By using this site, you agree to the Privacy Policy and Terms of Us
Accept
NewsG24UrduNewsG24UrduNewsG24Urdu
  • سرورق
  • آج کل
  • سیاست
  • عالمی خبریں
  • سپورٹ کریں
  • Hindi
Search
  • اتصل
  • مقالات
  • شكوى
  • يعلن
© NewsG24 Urdu. All Rights Reserved.
Reading: وزیراعلیٰ نہیں، یوگی آدتیہ ناتھ کی نفرت بول رہی ہے
Share
Notification Show More
Font ResizerAa
NewsG24UrduNewsG24Urdu
Font ResizerAa
  • سرورق
  • آج کل
  • سیاست
  • عالمی خبریں
  • سپورٹ کریں
  • Hindi
Search
  • سرورق
  • آج کل
  • سیاست
  • عالمی خبریں
  • سپورٹ کریں
  • Hindi
Have an existing account? Sign In
Follow US
NewsG24Urdu > Blog > سیاست > وزیراعلیٰ نہیں، یوگی آدتیہ ناتھ کی نفرت بول رہی ہے
سیاست

وزیراعلیٰ نہیں، یوگی آدتیہ ناتھ کی نفرت بول رہی ہے

Last updated: فروری 21, 2025 5:00 صبح
mohdshafiquefaizi 4 مہینے ago
وزیراعلیٰ نہیں، یوگی آدتیہ ناتھ کی نفرت بول رہی ہے
وزیراعلیٰ نہیں، یوگی آدتیہ ناتھ کی نفرت بول رہی ہے
SHARE

وزیراعلیٰ نہیں، یوگی آدتیہ ناتھ کی نفرت بول رہی ہے میں ایسا کیوں کہہ رہا ہوں اس کے کئی عوامل ہوسکتے ہیں اور یہ بات ملک کا ہر آدمی جانتا ہے کہ ودھان سبھا میں کون بول رہا تھا ریاست کا وزیراعلیٰ یا ہندو بہوسنکھیک وادی یوگی آدتیہ ناتھ؟ اس کو بہتر طور واضح کر سکوں اس کے لئے کچھ ایام پیچھے کی سیر کرانا مناسب سمجھتا ہوں۔ یقیناً آپ کو بھی پڑھنے میں مزہ آئے گا۔

- Advertisement -
Ad imageAd image

یہ بات ان دنوں کی ہے،جب میں کیرالہ سے ٹکڑوں میں سفر (break journey) سے واپس آرہا تھا۔ جنوبی ہند سے بھارت کے شمال سرحدی ضلع سدھارتھ نگر تک کا سفر کافی دلچسپ اور یادگار تھا، تعلیم پوری کرنے کے بعد یہ میرا پہلا سفر تھا۔ زبان اور طرز بیان کی بات کریں تو راجستھان کی مارواڑی، مہاراشٹر کی مراٹھی، گوا اور مہاراشٹر کے علاقوں میں بولی جانے والی کونکنی زبانوں سے پہلی بار واسطہ پڑا۔ کرناٹک کی کنڑ اور کیرالہ کی ملیالم نے تو جیسے دماغ ہلا دیا ہو۔

تقریباً سال بھر کیرالہ میں رہا لیکن مجال تھاکہ چند فقروں کے علاوہ کچھ بھی پلے پڑاہو۔  ملیالم کے تعلق سے میرا ماننا تھا کہ یہ زبان ملباریوں کے علاوہ کسی کے بس کی بات نہیں ہے۔ علاقائیت اور تعصب گو کہ ہندوستان کے دوسری ریاستوں کے نسبت کچھ زیادہ تھا لیکن اس کی وجہ زبان یا اسلوب نہیں تھا، بلکہ اہل اردو کی حیثیت سے میری کافی پزیرائی ہوتی تھی۔

- Advertisement -


بے سود سی یہ کہانی بتانے کا مقصد صرف اتنا ہے کہ محض زبان کی بنیاد پر کسی سے نفرت یا محبت نہیں ہوسکتی، اس کے لئے مختلف عوامل ہو سکتے ہیں جو کسی سے نفرت یا لگاؤ کا سبب بنتے ہیں۔ ہندوستان ویسے بھی مختلف زبان و تہذیب اور روایات کاملک ہے اس لئے یہاں محض زبان کی بنیاد پر کسی قوم یا کمیونٹی سے نفرت کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، مثال کے طور پر اوپر بیان کئے گئے پورے سفر میں کہیں بھی زبان کی بنیاد پر میرے ساتھ کوئی تعصب نہیں ہوا لیکن تصویر کا ایک دوسرا رخ یہ ہے کہ ایک مرتبہ قریبی ٹاؤن بانسی سے آتے ہوئے محض دو لوگوں کے بیٹھنے کی گنجائش والی سیٹ سے مجھے یہ کہہ کر اٹھانے کی کوشش کی گئی کیونکہ میں ایک باریش انسان  تھا۔

- Advertisement -


دراصل بس پوری طرح بھری ہوئی تھی کہیں تل رکھنے کی جگہ نہیں تھی۔ تبھی ایک جنیودھاری نے مجھے مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اے ملا! اٹھ.. مجھے بیٹھنا ہے۔  پہلے تو میں نے اس کا جواب نہیں دیا لیکن جب اس کی بدتمیزی حد کو تجاوز کرنے لگی تو مجھ سے رہا نہیں گیا، میں نے اس سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا۔

بابا آپ کی عمر میرے دادا کے برابر ہے اگر آپ پیار سے کہتے تو یقینا آپ کو بیٹھنے کی جگہ مل جاتی، لیکن چونکہ آپ نے بدتمیزی سے بات کی ہے اس لئے میں نہیں اٹھوں گا، آپ کو جو کرنا ہے کر لیجئے۔


تبھی وہ جنیودھاری مجھے ملا سے کٹھ ملا کہنے لگا، معاملہ برداشت کی حدوں کو پار کرتا دیکھ میں نے بس میں موجود دوسرے مسافروں کو شامل گفتگو کرتے ہو اپوچھا کہ میں نے داڑھی اور کرتا پہن رکھا ہے تو میں کٹھ ملا ہوں اور آپ میں سے بہت سے لوگ اپنی دھارمک آستھا کی بنیاد پر چُرکی رکھے ہوئے ہیں تو کیا میں آپ لوگوں کو چُرکیہوا کہوں (چرکی کی تصغیردیہاتی زبان میں)


تبھی بس میں بیٹھے کئی لوگوں نے میری حمایت شروع کردی، ایک شخص نے یہاں تک کہا کہ بیٹا آپ عمر میں بہت چھوٹے ہیں لیکن آپ نے آج جو شکشا دی ہے وہ میں پوری عمر نہیں بھولوں گا۔


ان دونوں واقعات سے یہ بات آپ کے سمجھ میں آچکی ہوگی کہ نفرت یا محبت کے لئے زبان معیار نہیں ہوسکتی،  پہلی مثال میں عزت ملنے کی وجہ یہ ہے تھی کہ جن لوگوں نے عزت دی تھی ان کا اپنا کوئی نفرتی ایجنڈا نہیں تھا، حالانکہ میری زبان اور میرا رہن سہن ان سے مختلف تھا۔جبکہ دوسری جگہ جو میرے آبائی وطن کا ایک قریبی ٹاؤن ہے ، جس زبان اور طرز معاشعرت ایک جیسی ہے بس مذہبی اعتبار سے ہماری آئیڈیالوجی الگ تھی ۔ وہاں اس جنیودھاری نے ایک سیاسی ایجنڈے کے تحت مجھے برا بھلا کہا تھا۔اور اس کی سب سے بڑی وجہ اس جنیودھاری کے دل میں مسلمانوں کے تئیں نفرت تھی۔


ایک اطمینان بخش اور خاص بات یہ تھی کہ پہلے ملک میں ایسے لوگوں کی بہتات تھی جو حق یا ناحق کا ساتھ دینے کے لئے مذہب برادری یا زبان کو معیار نہیں مانتے تھے ۔ لیکن اب حالات بدل چکے ہیں گذشتہ کچھ برسوں میں ایک ایسا سیاسی ایجنڈہ سیٹ کر دیا گیا جہاں حق ناحق کے بجائے دھرم اور برادری کو معیار مانا جاتا ہے، معاملہ دو دھرم کے مابین ہو تو اکثریتی طبقہ حق پر نہ ہوتے ہوئے بھی حق پر گردانا جاتا ہے، اور معاملہ ایک ہی مذہب کے دو مختلف برادریوں کے مابین ہو تو اپکر کاسٹ کا پہلو بھاری مانا جاتا ہے۔ جبکہ مسلمان اس ملک میں ناکردہ گناہوں کے لئے قید وبند کی صعوبتیں جھیل رہا ہے۔ بغیر صحیح اور غلط کی تمیز کئے مسلمانوں کو غلط ہی مانا جاتا ہے۔


نیچے سے اوپر تک ہر معاملے میں مذہب کاکلیدی رول ہے، اور یہ سب ایک طے شدہ ایجنڈے کے تحت کیا جارہا ہے۔ یہ ایجنڈہ اس لئے  کامیاب ہورہا ہے کیونکہ ملک میں جہالت کے ساتھ ساتھ پڑھے لکھے جاہلوں کی تعداد زیادہ ہوگئی۔ سماجی شرافت، مذہبی دیانت داری اور قانونی پاسداری کا نظریہ ختم کردیا گیا ہے۔  ملک کا سیاسی رخ اکثریت پسندی کی جانب کروٹ لے چکا ہے اب انصاف اصولوں اور قانون کے بجائے تعداد کی بنیاد پر طے ہورہا ہے۔ اصلی دہشت گرد کھلے عام خون کی ہولیاں کھیل رہے ہیں جبکہ بے قصور مسلمانوں کو جیلوں ٹھونس کر ان کی زندگیاں برباد کی جارہی ہیں۔ یہ سب صرف اس لئے ممکن ہو پا رہا ہے کیونکہ ملک میں آئین اور قانون کی جگہ  اکثریت پسندی نے لے رکھی ہے۔  اکثریت کی پسند انصاف اور ناپسند جرم  کہلانے لگا ہے۔


یوپی کی ودھان سبھا میں وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کا حالیہ بیان بھی اسی ایجنڈے کا حصہ ہے، حقیقت میں انہیں اردو سے کوئی لینا دینا نہیں ہے بس موقع ہاتھ آیا تو دو گالیاں مسلمانوں کو اس لئے دیدی کیونکہ اس سے ان کا ووٹر خوش ہوگا۔ جس کا انہیں سیاسی فائدہ ہوتاہے، ورنہ یہ بات وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ بھی جانتے ہیں کہ بنا اردو الفاظ کا استعمال کئے وہ خود بھی دس منٹ بات نہیں کر سکتے۔ جس دن انہوں نے اردو کا سہارا لے کر مسلمانوں کو کٹھ ملا کہا تھا اس کے دوسرے ہی دن ودھان سبھا میں وہ اردو کا شعر پڑھ کر واہ واہی لوٹ رہے تھے۔


وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کے اس حرکت کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے لیکن کیا صرف مذمت کردینے سے معاملے کو ختم مان لیا جائے یا یہ ایک سوچی سمجھی سازش کا حصہ ہے جس کے نتائج آئندہ ایام میں مزید  دیکھنے کو مل سکتے ہیں؟۔

میرے حساب سے یہ ایک سی ایم کی زبان نہیں ہوسکتی، یقیناً اس کے پیچھے ایک کٹر تنگ نظر لیڈر کی ذہنیت کار فرما ہے جس کے نزدیک اکثریتی روایات اور تہذیب ہی قابل قبول ہے،باقی تمام طرز حیات کو کالعدم کرنا ہی اس کا مقصد ہے۔ ایک ایسی دقیانوسیت جو طاقت اور جہالت کی کی تمام حدیں پار کرجانے کو گوڈ گورنینس اور ترقی مانتی ہے دھرم کے نام پر عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنا جس کا پیشہ ہے، لوگوں کے بھولے پن اور ان کی اندھی تقلید کو کیش کرنا ہی اس کا واحد مقصد ہے۔


اگر پورے معاملے کو دیکھا جائے تو وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کا بیان اپوزیشن لیڈر ماتا پرساد کے سوال سے میل نہیں کھاتا، یوگی آدتیہ ناتھ کا بیان ایسے ہے جیسے مارے گھٹنا پھوٹے سر، اپوزیشن لیڈر انگریزی کو ودھان سبھا کی زبان کے طور منظوری نہ دینے کی بات کہہ رہے ہیں جبکہ انہوں نے مابقیہ علاقائی زبانوں کے ساتھ ساتھ اردو کو بھی ودھان سبھا کی کارروائی میں شامل کرنے کی بات کہی ہے، اردو کے لئے انہوں نے خاص کوئی مطالبہ بھی نہیں کیا ہے۔ انہوں نے صرف انگریزی کو ودھان سبھا کی کارروائی سے باہر رکھنے کی بات کہی ہے۔


اردو کے بارے میں عام طور ایک نیریٹو سیٹ کردیا گیا ہے کہ اردو مسلمانوں کی زبان ہے بس مسلمانوں سے اردو کی اتنی سے نسبت اس ایجنڈے کو سپورٹ کرتی ہے جس کی سیاست کرکے وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ اور ان کی پارٹی یہاں تک پہنچی ہے۔ پھر کیا تھا وزیراعلیٰ یوگی جی اس موقع کو کیسے چھوڑ دیتے، موضوع کے خلاف ہی سہی لیکن انٹی مسلم ان کا ایجنڈہ فٹ بیٹھتا تھا سو انہوں نے بنا کسی مریادہ کا پاس کرتے ہوئے مسلمانوں کو کٹھ ملا، یا دوسرے لفظوں میں گالیاں دے ڈالی۔


یاب سوال پیدا ہوتا ہے کہ  سرعام جمہوریت کے مندروں میں ایک کمیونٹی خاص کو گالیاں دی جارہی ہیں ۔ اس کے لئے ذمہ دار کون ہے؟ ۔۔۔۔۔۔ ہوسکتا ہے کہ آپ کے پاس اس کی کئی وجوہات ہوں اور الگ الگ افراد ذمہ دار ہوں لیکن راقم کے نزدیک اس کی دو ہی وجوہات ہیں اول تومسلمان خود اس کے لئے ذمہ دار ہیں۔ مسلمانوں پر اس کی ذمہ داری اس لئے عائد ہوتی ہے کیونکہ مسلمانوں نے بحیثیت ایک قوم اکثریتی طبقے کے ظالموں کے سامنے خود کو سرینڈر کردیا ہے۔


ظالم حکمرانوں کے سامنے اپنے حقوق کی لڑائی کے لئے اجتماعی جد جہد کرنا ترک کردیا ہے، جبکہ دوسری وجہ وہ سیاسی لیڈران ہیں جن کو مسلمان اپنا رہنما مانتے ہیں۔ اس کے ثبوت کے طور پر ،  یوپی ودھان سبھا کے اسی واقعہ کو لے  لیجئے اور سوچئے کہ اگر ایسا ہی کسی اور کمیونٹی کے بارے میں کہا گیا ہوتا تو کیا ہوتا۔ یقین مانیں ہنگامہ ہوگیا ہوتا۔ ودھان سبھا کی کارروائی روک دی گئی ہوتی، لیکن معاملہ مسلمانوں سے تعلق رکھتا تھا اس لئے ہنگاہ تو دور کسی نے مضبوط احتجاج بھی درج نہیں کرایا۔

سماجوادی پارٹی جس کے سارے ایم ایل اے مسلمانوں کے ووٹوں سے جیت کر وہاں پہنچے ہیں انہوں نے بھی اس کو معمول کی بات سمجھ کر نظرانداز کردیا۔ مسلمان اس لئے بھی قصوروار ہے کہ معاذ اللہ مسلمانوں کا اپنے رب پر بھروسہ کمزور پڑ گیاہے ۔  اپنی خود کی شاندار آئیڈیالوجی کے باوجود غیروں کی تابعداری قبول کر لی ہےجس کے نتیجے میں مندر کے گھنٹے کی طرح جس کا جب من کرتا ہے بجا کر چلا جاتا ہے۔


ایسا بھی نہیں ہے کہ جمہوری اداروں میں مسلمانوں کو پہلی بار گالی دی گئی ہو اس سے پہلے بھی پارلیمنٹ میں مسلمانوں کو دہشت گرد کہاگیا اور تمام اپوزیشن پارٹیاں خاموش تماشائی بنی رہیں۔ حالانکہ بھارت کی اس پارلیمنٹ میں سادھوی پرگیہ سنگھ ٹھاکر پورے پانچ سال مکمل کرچکی ہیں، ان کو دہشت گرد کہنے کی کسی کی ہمت نہیں ہوئی۔ مسلمانوں کی سیاسی بے شعوری اور غیروں کی تابعداری ابھی اور بھی برے دن دکھائے گی۔

میں جانتا ہوں کہ میری باتوں کو مسلمان کوئی اہمیت نہیں دیں گے لیکن پھر بھی اپنے فرض منصبی سے سبکدوشی کی خاطر آخر میں اتنا کہہ دینا ضروری سمجھتا ہوں کہ اگر جلد ہی ہندوستانی مسلمانوں نے اپنا سیاسی قبلہ درست نہیں کیا تو وہ دن دور نہیں جب ہر کوئی ایرا غیرا مسلمانوں کو سرعام سڑکوں پر دوڑا دوڑا کر پیٹے گا، مسلمانوں کی بہو بیٹیوں کی عصمت  سر راہ تار تار کی جائے گی۔

قومی عروج محض روزہ نماز اور زکاۃ کی ادائیگی سے ممکن نہیں ہے۔ اگر ایسا ہوتا معلم کائنات خود سیاسی حکمت عملی کو بروئے کار نہیں لاتے، مکہ چھوڑ کر مدینہ ہجرت نہیں فرماتے،حقیقت یہ ہے کہ اموردین بہت مختصر ہیں جن کا تعلق صرف مسلمانوں سے لیکن اسلام کا امور دنیا بہت وسیع ہے جس کے دائرے سے کائنات کی کوئی شئ باہر نہیں جاتی۔ اور سبھی کے حقوق کی ادائیگی مسلمانوں پر فرض ہے۔  لہذا ملت اسلامیہ ہند کو بند کمروں سے باہر نکل کر سیاسی امامت کے فرائض انجام دینا ہوگا، ورنہ خونخوار ہنود کی افواج ہمیں تہہ تیغ کرنے کو تیار کھڑی ہے، بس آپ کا نمبر کب آئے گا اس کا انتظار کیجئے۔

2Like
0Dislike
100% LikesVS
0% Dislikes

You Might Also Like

تنوج پُنیا کی اویس انصاری کے گھر آمد، عوامی مسائل اور ترقی پر ہوئی گفتگو

وقف قانون 2025: سپریم کورٹ میں اہم سماعت، کل بھی جاری رہے گی سماعت

اترپردیش: 350 سے زائد مسجد، مدرسوں پر کارروائی، کہیں تالا تو کہیں چلا بلڈوزر

پسماندہ کنونشن کامیابی سے اختتام پذیر

مومن انصار سبھا کا شراکت داری کنونشن لکھنؤ میں منعقد ہوگا

TAGGED:کٹھ ملاملاملا مولویوزیراعلیٰیوگی آدتیہ ناتھ
Share This Article
Facebook Twitter Whatsapp Whatsapp LinkedIn Telegram Email Copy Link Print
Previous Article مکتب الصالحات کے سالانہ پروگرام میں بچوں کو انعامات سے نوازا گیا مکتب الصالحات کے سالانہ پروگرام میں بچوں کو انعامات سے نوازا گیا
Next Article قومی مسائل کے حل کے لیے علما، خطبا اور ذاکرین کی میٹنگ
2 Reviews
  • اردو: اپنے ہی وطن میں ہوں مگر آج اکیلی - NewsG24Urdu says:

    […] سے رابطہ کریں، سوشل میڈیا سے نہیں 3 مہینے ago Latest News وزیراعلیٰ نہیں، یوگی آدتیہ ناتھ کی نفرت بول رہی ہے 5 گھنٹے ago آئین کی خلاف ورزی روکنے کے لیے باہمی قومی […]

    جواب دیں
  • عید الفطر کی تیاریاں: نماز کے سلسلے میں میٹنگ کا انعقاد - NewsG24Urdu says:

    […] میں یہ بات آئی کہ عید الفطر کی نماز عید گاہ میں کس وقت ادا کی جائے۔ جس پر میٹنگ میں موجود لوگوں نے […]

    جواب دیں

Leave a review جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Please select a rating!

محمد ذیشان اور ابوشحمہ انصاری نے دی عیدالاضحی کی مبارکباد
بزمِ مدنی کے زیرِ اہتمام یادِ مائل میں سجی چراغوں جیسی شعری شام
مصنف و ادیب مفتی شعیب رضا نظامی فیضی کو "امام احمد رضا ایوارڈ” تفویض
قربانی خلوص و تقویٰ کا مظہر: مولانا شان محمد جامعی
مخلص نہیں کوئی بھی اردو زبان کا؟

Advertise

ہمارا موبائل اپلیکیشن ڈاؤن لوڈ کریں

NewsG24بھارت میں پروپیگنڈہ خبروں کے خلاف ایک مہم ہے، جو انصاف اور سچائی پر یقین رکھتی ہے، آپ کی محبت اور پیار ہماری طاقت ہے!
© NewsG24 Urdu. All Rights Reserved.
  • About Us
  • TERMS AND CONDITIONS
  • Refund policy
  • سپورٹ کریں
  • Privacy Policy
  • پیام شعیب الاولیاء
  • Contact us
Welcome Back!

Sign in to your account

Lost your password?