✍️ : سمير أحمد فيضي
جامعة الأزهر الشريف،القاهره
کسی بھی طالب علم کا مادرِ علمی وہ مقدس درسگاہ ہے جو انسانیت کو جہالت کے سیاہ غاروں سے نکال کر علم و حکمت کی روشنی سے آشنا کرتی ہے۔ یہ وہ آغوش ہے جو ہر بچے کو ناواقفیت کی گہرائیوں سے نکال کر علم کی بلندیاں دکھاتی ہے، اور اسی علم کی بدولت انسان نہ صرف دنیا میں اپنی پہچان قائم کرتا ہے بلکہ اپنی تقدیر بھی خود لکھتا ہے۔ مادرِ علمی کے دروازے پر قدم رکھتے ہی انسان کی فکری، ذہنی، اور روحانی تربیت شروع ہوتی ہے، اور یہ سفر کبھی ختم نہیں ہوتا۔
یہی وہ سرچشمہ ہے جو انسان کو نہ صرف علم کی حقیقت سے روشناس کراتا ہے بلکہ اُسے اس حقیقت کے ساتھ جینے کا سلیقہ بھی سکھاتا ہے۔ یہی وہ مقام ہے جہاں گم شدہ ذہنوں کو روشنی ملتی ہے، دلوں کو سکون حاصل ہوتا ہے، اور اعمال کو درست سمت دی جاتی ہے۔ اس کی نسبت ایک تاجِ افتخار کی مانند ہے جو ہر فرد کی شخصیت کو عظمت، وقار، اور بلندی عطا کرتا ہے۔
اور اس کی گود میں پرورش پانے والے ہر طالب علم کے دل میں اخلاص اور ذہن میں شعور کی ایک نئی جہت ابھرتی ہے، اور وہ اپنے عمل، اخلاق، اور علم کی بدولت ہر میدان میں اپنی شناخت بناتا ہے۔ یہی وہ گہوارہ ہے جو انسان کو علم و حکمت کی منزل تک پہنچاتا ہے،
مادرِ علمی چنان گہوارۂ دانش است کہ طفلِ ناواقف را بہ قافِ حکمت رسانَد و جہانِ معنی آشنا سازَد
یعنی یہ وہ مقدس گہوارہ ہے جو بے خبر کو حکمت کی بلندیاں دکھاتا ہے اور اس کو معنی کی حقیقت سے آشنا کرتا ہے۔
اور اس کی تعلیم و تربیت اور دعائیں ہی وہ طاقت ہیں جو طالب علم کو زندگی کی سختیوں کا مقابلہ کرنے کی ہمت دیتی ہیں۔ اس کی محنت، قربانیوں اور دعاؤں کے نتیجے میں ہی انسان کامیابی کی منزل تک پہنچتا ہے۔
اور اس نے ہمیں نہ صرف ذہنی و فکری تربیت دی بلکہ ہماری شخصیت کو ڈھالا اور ہمیں جہالت کی گمراہیوں سے نجات دلائی۔ آج اگر ہم کسی مقام پر ہیں، تو یہ اسی مادرِ علمی کی عطا ہے۔
یہ وہ مقدس درخت ہے جس کی چھاؤں میں انسان نے علم و شعور کی آبیاری کی۔ اس کے در و دیوار میں اکابرین کی دعائیں اور قربانیاں بسی ہوئی ہیں، اور اس کے فیض سے ہمیشہ نسلیں مستفید ہوتی رہیں گی۔ وقت کی سختیاں اور حالات کی تبدیلیاں اس کے وجود کو مٹا نہیں سکتیں، کیونکہ اس کی بنیادیں مضبوط اور اس کی جڑیں گہری ہیں۔
وہ مینارِ نور ہے جس کی روشنی سے پورا معاشرہ منور ہوتا ہے۔ اس کا ہر قدم، ہر عمل، اور ہر ایک فرد کی کامیابی کی بنیاد ہے۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ اس کی عظمت اور مقام کو کسی کی غفلت یا بے اعتنائی ماند کر سکے؟
اس کی فضیلت اور اس کا اثر وقت کی کٹھنائیوں میں بھی ہمیشہ قائم رہے گا۔
مادرِ علمی وہ مقدس درسگاہ ہے جس نے نہ صرف ہمارے اذہان کو علم و حکمت کی روشنی سے روشن کیا بلکہ ہماری شخصیت کو اخلاق، وقار اور تہذیب کے رنگوں سے آراستہ کیا۔
آج ضروری ہے کہ ہم اپنی مادرِ علمی کے حق میں خیرخواہی کا مظاہرہ کریں اور اس کی ترقی و استحکام کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔ یہ درسگاہ ایک زندہ ادارہ ہے، اور اس کے فیضان سے نئی نسلوں کے مستقبل کی تعمیر ہوتی ہے۔ اس کی عظمت ہمیشہ برقرار رہے گی، اور جو افراد اس سے وابستہ رہ کر اس کی نسبت پر فخر محسوس کرتے ہیں، وہ واقعی سعادت مند ہیں۔
یقیناً، مادرِ علمی کی خدمت عین سعادت ہے، اور اس کی بے قدری دنیا و آخرت میں خسارہ ہے۔
لہذا، ہمیں اپنی مادرِ علمی کے لیے ایک دل، ایک زبان اور ایک عزم کے ساتھ کھڑا ہونا چاہئے، تاکہ اس کا فیض نسل در نسل جاری رہے اور ہماری نسبت اس عظیم درسگاہ سے ہمیشہ فخر کا باعث بنے۔
حقِ مادرِ علمی یہ ہے کہ فرزند ہر قدم پر اس کے وقار و حرمت کا پاس رکھیں، اخلاص و محبت سے اس کا ساتھ دیں۔
کیا یہ ممکن ہے کہ کوئی اپنی ماں کی آغوشِ شفقت، قربانیوں اور دعاؤں کا حق ادا کر سکے؟ بالکل اسی طرح، مادرِ علمی کا احسان اتنا عظیم اور بھاری ہے کہ ہم چاہ کر بھی اس کا حق ادا نہیں کر سکتے۔ اس نے ہمیں بے نام اور بے علم انسان سے حکمت و دانش کی روشنی میں سرفراز کیا اور دنیا میں وقار بخشا۔
یہ کیسا عظیم و عالی مقام ہے کہ کسی شخص کو ‘فیضی’ یا ‘فیض الرسول’ کی نسبت سے یاد کیا جائے، اور اس نام کے ساتھ ہی نہ صرف اس کے احترام کا جذبہ بیدار ہو بلکہ اس کی نسبت سے مادرِ علمی کی عظمت اور مرتبے کا بھی اظہار ہو۔ یہ نسبت انسان کی روحانی عظمت کا آئینہ دار ہوتی ہے۔
وفاداری یہ ہماری اصل پہچان ہے وہ افراد جو اپنی مادرِ علمی کی نسبت کو نظرانداز کرتے ہیں، دراصل اپنی حقیقی شناخت سے منحرف ہو جاتے ہیں۔ وہ اپنی روشنی کھو بیٹھتے ہیں اور زندگی کے تاریک راستوں پر بھٹکتے ہیں۔
مادرِ علمی کی نسبت وہ گوہرِ نایاب ہے جسے اختیار کرنے والا ہر فرد خود کو بلندیوں پر فائز دیکھتا ہے، اور وہ جان لیتا ہے کہ یہ نسبت نہ صرف دنیا بلکہ آخرت میں بھی کامیابی کی ضمانت ہے۔
یہ وہ عظیم عزت ہے جو ہمیشہ فخر کا باعث بنتی ہے۔
مادرِ علمی کی خدمت عین سعادت ہمیں اپنی زندگی کے تمام پہلوؤں میں اپنی مادرِ علمی کی عظمت اور وقار کو برقرار رکھنا چاہئے۔ یہ وفاداری اور محبت ہی ہے جو انسان کو حقیقی کامیابی کی راہ پر گامزن کرتی ہے اور دنیا و آخرت میں سعادت کا دروازہ کھولتی ہے۔
اگریہی ہماری مادرِ علمی آج اپنی بقا اور عظمت کے لئے ہم سے مدد کی خواہاں ہے، تو کیا یہ ہمارا فرض نہیں کہ ہم اس کی توقعات پر پورا اتریں؟
ہم پر یہ فرض ہے کہ ہم اپنی مادرِ علمی سے وفاداری، محبت اور اخلاص کا وہ ثبوت پیش کریں جو اس کی عظمت اور احسانات کے شایانِ شان ہو، کیونکہ اس کی عظمت کا قرض ہم کبھی بھی ادا نہیں کر سکتے۔
لہذا، ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم اپنی مادرِ علمی کی عظمت، وقار اور استحکام کو برقرار رکھنے کے لئے اپنی تمام تر صلاحیتوں کو بروئے کار لائیں۔ یہ نہ صرف ہمارے کردار کا عکاس ہوگا بلکہ دین و دنیا میں کامیابی کی ضمانت بھی ثابت ہوگا۔
مادرِ علمی کبھی بھی زوال پذیر نہیں ہو سکتی کیونکہ اس کی بنیادیں اکابرین کی دعاؤں، ان کے خونِ دل اور بےلوث قربانیوں سے مضبوط ہوئی ہیں۔ یہ وہ عظیم درسگاہ ہے جس نے اپنی تاریخ میں ان نفوسِ قدسیہ کے نقش قدم سمیٹے ہیں جنہوں نے علم کے چراغوں کو جلا کر اپنی زندگیاں علم کی خدمت میں گزار دیں۔
اگرچہ کچھ لوگ دنیاوی اغراض میں ملوث اور احساسِ کمتری کا شکار ہیں، اور اپنی کمزوریوں کے باعث اس کی عظمت کو سمجھنے سے قاصر رہتے ہیں، حقیقت یہ ہے کہ مادرِ علمی کا فیضان کبھی بھی رکاوٹ کا شکار نہیں ہو سکتا۔ اس کے علوم و معارف کے چشمے ہمیشہ جاری رہتے ہیں اور ہر نسل کو سیراب کرتے رہیں گے۔
یہ بات کہنا درست ہوگا کہ مادرِ علمی وہ مینارِ نور ہے جو حالات کی سختیوں اور وقت کے جبر کے باوجود اپنی روشنی کو ماند نہیں ہونے دیتا۔ اس کی درسگاہوں سے نکلنے والے علم کے مسافروں نے ہر دور میں انسانیت کے لیے امید کے چراغ جلا کر اسے روشن رکھا ہے، اور یہ سلسلہ ہمیشہ جاری رہے گا۔
لہذا، ہمیں یقین رکھنا چاہیے کہ مادرِ علمی کی عظمت اور اس کا فیضان ہمیشہ برقرار رہے گا، اور اس کے علوم و برکات کی روشنی ہر دور کی تاریکی کو مٹانے کی طاقت رکھتی ہے۔ اس سے نسبت ہماری کامیابی اور سعادت کی ضامن ہے، اور اس کی وفا شعاری ہماری ذمہ داری ہے۔
جو افراد اپنی نسبت مادرِ علمی سے منقطع ہو کر احساسِ کمتری میں مبتلا ہو جاتے ہیں، وہ حقیقت میں اپنی اصل شناخت اور مقام کو گم کر بیٹھتے ہیں۔ افسوس کہ ایسے لوگ دنیاوی فریب اور ذاتی کمزوریوں کے زیر اثر اپنی مادرِ علمی کے احسانات کو فراموش کر دیتے ہیں، جیسے کہ انہیں یہ بھول جاتا ہے کہ ان کی علمی و فکری بلندی کا منبع یہی مادرِ علمی ہے۔ یہ دراصل ناشکری اور بے وفائی کی انتہاء ہے کہ وہ ادارہ جس نے رات دن کی محنت سے آپ کو علم کی روشنی دی، آج اسی سے آپ بے رخی اختیار کر لیتے ہیں، اور اس کے احسانات کو نظرانداز کرتے ہیں۔
چوں گہوارۂ علمِ مادر خویش را فراموش کند،
کیا ہی بے وفا ہے وہ جو اپنی اصل کو بھلا دے، حالانکہ اُسی نے اسے علم کی بلندیوں تک پہنچایا اور جہالت پر غلبہ دیا۔
ایسے افراد شاید یہ بھول گئے ہیں کہ جو درخت اپنی جڑوں سے کٹ جاتا ہے، وہ طویل عرصے تک سرسبز نہیں رہ سکتا۔ مادرِ علمی سے بے رخی اختیار کرنا ایسی ہی بے وقعتی ہے جیسے انسان اپنی بنیاد کو نظر انداز کر دے۔ یاد رکھیے، مادرِ علمی کا فیضان آپ کے خون میں سرایت کر چکا ہے، اور اگر آپ اس کی خدمت میں شامل نہیں ہوں گے، تو آنے والی نسلوں کے لیے اس کے فیوض و برکات کے دروازے بند ہو سکتے ہیں۔
حقِ مادرِ علمی تو یہ ہے کہ اس کے فرزند ہمیشہ بے ریا اور بے تفاخر اس کی خدمت کریں تاکہ اس کا فیضان ہمیشہ جاری رہے، ورنہ ناشکری اور غفلت دنیا و آخرت میں نقصان کا باعث بن سکتی ہے۔
قدرِ گوہر شاہ داند یا بداند جوہری،
یعنی حقیقی جوہر کی قیمت وہی جان سکتا ہے جو خود جوہری ہو۔ اس طرح مادرِ علمی کے فیوض کو صرف وہی طالب علم سمجھ سکتا ہے جو شکرگزاری اور وفا شعاری کے جذبے سے متصف ہو۔
مادرِ علمی کا مقام ہمیشہ بلند رہتا ہے۔ یہ مینارِ نور ہے جس کے سائے تلے نسل در نسل علم کے چراغ جلتے رہیں گے، کیونکہ اس کی بنیادیں اکابرین کی قربانیوں اور دعاؤں سے مستحکم کی گئی ہیں۔ ہمیں اپنی تمام تر صلاحیتوں کے ساتھ اس کے وقار کو بلند کرنا ہے تاکہ اس کا فیضان ہمیشہ جاری رہے۔
یہ حقیقت ابدی ہے کہ مادرِ علمی کا فیضان کبھی نہیں رکے گا، وہ ہمیشہ علم کے چراغ روشن کرتا رہے گا اور تاریکی کو مٹا دے گا۔
ہماری مادرِ علمی ہماری شناخت، ہماری ترقی کی ضامن ہے۔ اس کے احسانات کا قرض اتنا عظیم ہے کہ اسے ادا کرنا ممکن نہیں، مگر بہترین طریقہ یہ ہے کہ ہم اپنی زندگی کے ہر پہلو میں اس کی عزت کو بڑھائیں، اس کے وقار کا تحفظ کریں، اور اس کے فیضان کو آئندہ نسلوں تک منتقل کریں
آئیں، ہم سب اپنی مادرِ علمی کے وفادار رہیں، اس کی خدمت کو اپنا شعار بنائیں، اور اس کے فیض کو نسل در نسل منتقل کرنے میں اپنا کردار ادا کریں، کیونکہ یہی ہماری حقیقی کامیابی ہے۔