کیلیفورنیا کے کافروں کے لئےعذاب ہے تو برصغیر میں مچی طوفان بدتمیزی مسلمانوں پر عذاب کیوں نہیں؟
"دل کو بہلانے کا غالب یہ خیال اچھا ہے” غالب کا یہ شعر کیلیفورنیا کے عذاب کو سمجھنے میں کا فی مدد کرتا ہے جب سے امریکی شہر لاس اینجلس میں آگ لگی ہے امت مسلمہ کا ایک بڑا طبقہ اس سانحہ کو امریکیوں پر خدا کا عذاب بتانے میں جٹا ہوا ہے۔ اخبارات اور سوشل میڈیا کی معرفت ملی جانکاریوں کے مطابق مسلمان اس کو اسرائیل فلسطین جنگ میں امریکی امداد کا وبال ثابت کرنے میں جی جان لگا رہے ہیں۔
کیا ہے پورا معاملہ

گزشتہ ہفتے یہاں Palisades کے علاقے میں آگ بھڑک اُٹھی جس نے دیکھتے ہی دیکھتے ایک بڑے علاقے کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ ہزار کوششوں کے باوجود تادم تحریر اس آگ پر قابو نہیں پایا جاسکا ہے۔ اس آگ سے ہونیوالے نقصانات کا تخمینہ اس قدر زیادہ ہے کہ اسے امریکی تاریخ کی بدترین تباہی و بربادی قرار دیا جا رہا ہے۔
ویکیپیڈیا کے مطابق یہ حادثات خشک سالی، کم نمی اور سانتا انا کی ہواؤں کی وجہ سے مزید شدت اختیار کر گئی ہیں، جن کی رفتار بعض جگہوں پر 100 میل فی گھنٹہ (160 کلومیٹر فی گھنٹہ؛ 45 میٹر فی سیکنڈ) تک پہنچ گئی ہے۔ 13 جنوری 2025 تک ان حادثات کی وجہ سے کم از کم 25 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ تقریباً 1,80,000 افراد نقل مکانی پر مجبور ہوچکے ہیں۔
12,401 سے زائد ڈھانچے تباہ یا متاثر ہو چکے ہیں، جبکہ تقریباً دو درجن افراد لاپتہ قرار دیے گئے ہیں، امریکی حکام کا کہنا ہے کہ اس ہفتے ہلاکتوں کی تعداد مزید بڑھنے کا خدشہ ہے کیونکہ سانتا انا کی تیز ہوائیں دوبارہ شدت اختیار کرسکتی ہیں۔ فائر فائٹرز طویل مدتی موسمی حالات پر نظر رکھے ہوئے ہیں اور آئندہ چند دنوں پر توجہ مرکوز کیے ہوئے ہیں، جن میں تیز ہواؤں، جلے ہوئے علاقوں کا جائزہ، ملبے کو ہٹانے اور سیلاب کے خطرات کا جائزہ شامل ہیں۔
امریکی حکام کے مطابق یہاں جل کر خاک ہوجانے والی آبادیوں کو دیکھ کر محسوس ہوتا ہے کہ جیسے کسی نے ایٹم بم گرا دیا ہو۔اس آگ سے ہونیوالے نقصانات کا تخمینہ 135بلین ڈالر سے 150بلین ڈالر لگایا جا رہا ہے۔
لاس اینجلس میں آگ کیسے لگی؟

ابھی اس حوالے سے کچھ معلوم نہیں ہوسکا فی الحال موسمیاتی تبدیلیوں کو اس کی وجہ بتائی جارہی ہے کیلیفورنیا میں 2022-23ء کے دوران خوب بارش ہوئی تھی جس کی وجہ سے جھاڑیوں اور گھاس پھونس نے خوب پرورش پائی۔پھر اچانک سے خشک سالی کے سبب جھاڑیاں سوکھ کر ایندھن کی شکل اختیار کرگئیں۔
چونکہ لاس اینجلس میں ہوائیں بہت تیز چلتی ہیں اس لئے اگر کسی وجہ سے آگ لگ جائے تو اس کے پھیلنے کے امکان بہت زیادہ بن جاتے ہیں ۔ امریکی حکام تو ابھی تک یہ سراغ لگانے میں ناکام ہیں کہ لاس اینجلس میں آگ کیوں لگی لیکن ہندو پاک سمیت برصغیر کا مسلمان اس آگ سے جڑے ہر پہلو پر اپنی ریسرچ پوری کرچکا ہے۔ مسلمانوں کو یقین کامل ہے کہ یہ آگ دراصل اللہ کا عذاب ہے ۔ جس کے ذریعہ اللہ نے امریکیوں کو یہ سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ ٹیکنالوجی پر انحصار یا عبقریت کا اظہار کچھ نہیں ہوتا ، سپر پاور صرف اللہ ہے وہ جب چاہے کسی بھی طاقت کو نیست و نابود کرسکتا ہے۔
ماہرین کا دعویٰ ہے کہ امریکہ کی مدد سے اسرائیل نے فلسطینیوں پر جو ظلم ڈھائے ، اورغزہ پر بمباری کرکے اسے کھنڈرات میں تبدیل کردیا ، دراصل یہ تباہی و بربادی اسی کا ردعمل ہے جس کے بدلے اب اللہ نے لاس اینجلس کو برباد کردیا۔ اس درمیان کچھ اہل نظر اپنی بات کو درست ثابت کرنے کے لئے امریکی اداکار جیمز وڈ کی ویڈیو بطور ثبوت پیش کر رہےہیں ۔ جس میں جیمز وڈ ایک امریکی چینل پر روتے ہوئے کہہ رہا ہے کہ ایک دن آپ اپنے سوئمنگ پول میں نہا رہے ہوتے ہیں اور اگلے دن سب کچھ ختم ہوجاتا ہے۔
عذاب یا اپنے فرائض سے چشم پوشی
مسلمان جیمزوڈ کو یاد دلارہے ہیں کہ تم فلسطینیوں کے خلاف اسرائیلی کارروائیوں کی حمایت کیا کرتے تھے، اس لئے اللہ نے تمہیں اس عذاب میں مبتلاء کیا ہے لہذا اب روتے کیوں ہو؟ اللہ کے عذاب کا مزا چکھو، بیشک اللہ کی پکڑ بہت شدید ہے۔اب تازہ معلومات یہ سامنے آئی ہے کہ اگرچہ اس آتشزدگی کے دوران اداکارہ پیرس ہلٹن سمیت ہالی وڈ انڈسٹری سے وابستہ کئی شخصیات کے محل نما گھر جل کر خاک ہوگئے مگر ابتدائی معلومات کے برعکس جیمز وڈ کا گھر صحیح سلامت ہے۔
عذاب اور معجزہ
اس کے پیچھے کی کہانی یہ ہے کہ Pacific Palisades میں کئی مکانات جل کر خاکستر ہوگئے۔ چونکہ وہاں رہائش پذیرسارے مکینوں کو وہاں سے نکال دیا گیا تھا اور پورا علاقہ ملبے کے ڈھیر میں تبدیل ہوگیا تھا اس لئے جیمز وڈ کو غلط فہمی ہوئی کہ اس کا گھر بھی جل گیا ہوگا مگر اب تازہ خبروں کے مطابق آس پاس کے سب گھر جل جانے کے باوجود جیمز وڈ کا گھر محفوظ بتایا جارہا ہے ۔
مسلمان جس سانحہ کو ابھی تک خدا کا عذاب بتارہے تھے اب اسی کواہل کفر ایک معجزہ قرار دے رہیں ہے اب اہل ایمان کا عذاب ایک معجزہ بن کر مسلمانوں کے دعوؤں کا مذاق اڑا رہا ہے۔ یہ بات ٹھیک ہے کہ انسانی زندگی پرآنے والی ابتلاء یا عذاب انسانوں کے اپنے عمل کی مرہون منت ہوتی ہے
اب اگر یہ آگ اللہ کا عذاب بن کر مسلط ہوئی ہے تو کسی کا اس پر شکوک و شبہات کوئی اہمیت نہیں رکھتا لیکن سوال یہ ہے کہ اگر یہ اللہ کا عذاب تھا اور اس کی وجہ فلسطین کی تباہی ہے تو یہ عذاب براہ راست اسرائیل پر نازل کیوں نہیں ہوا؟ اگراس آگ سے فلسطینیوں پر ڈھائے گئے مظالم کا حساب کتاب مقصود تھا تو یہ تباہی و بربادی تل ابیب کے حصے میں کیوں نہیں آئی؟ ۔
میں اس بات سے انکار نہیں کرتا کہ اسرائیل کی پشت پناہی کی وجہ سے ہی امریکہ کو یہ سزا دی گئی ہو مگر لاس اینجلس میں عام امریکی شہریوں کے گھر جلانے سے کیا ہوگا؟امریکہ کی اسرائیل نوازی کے خلاف اگر یہ ہماری بدعاؤں کا اثر ہے تواس آگ کو لاس اینجلس میں آگ بھڑکنے کے بجائے پینٹاگان اور نیویارک میں بھڑکنا چاہئے تھا جس سے امریکی اسلحہ کے ذخیرے HWAD میں آگ لگتی ، تو شاید اس سے امریکہ کے سپر پاور کا غرور بھی خاک میں ملتا اور کفار کو پتہ چلتا کہ عذاب کیا ہوتا ہے۔
ٹکنالوجی کو حقیر سمجھنا
جہاں تک ٹیکنالوجی کے لایعنی و بے معنی ہونے کی بات کہی جارہی ہے یہ انتہائی احمقانہ اور جاہلانہ عمل ہے اس بڑے پیمانے پر تباہی و بربادی کے باوجود ابھی تک محض 26 اموات خبر ہے۔ فرض کیجئے کہ یہی آگ اگر ہندوستان کے کسی شہر یا ریاست میں اتنی ہی ہولناک صورت میں لگی ہوتی تو تباہی کے اعداد و شمار کیا ہوتے ؟

اوپر دکھائی گئی تصویر ہندوستان کے ریاست بہار کی ہے جہاں 40 ہزار ایکڑ زمین میں لگی آگ کی چپیٹ میں آکر 16 افراد کی موت ہوگئی تھی، نیز اتنی سی آگ کو کنٹرول کرنے میں کئی دن لگ گئے تھے۔ اس خبر سے بتانا صرف اتنا مقصود ہے کہ یہ امریکی ٹکنالوجی کی دین ہے کہ اتنی بڑی تباہی کے باوجود بھی اموات کی شرح نہ ہونے کے برابر ہے اگر یہی آگ بھارت کے کسی شہر میں لگ جائے تو لاشوں کے انبار لگ جائیں گے ، اس لئے جہالت کو ترک کیجئے اور ٹکنالوجی میں اپنی ناہلی کو قبول کرتے ہوئے اسے دور کریں۔
نتیجہ
بظاہر ایسا کرکے جاہل اور ناوقف مسلمانوں کی نظر میں اہل علم اور دانشور تو بن جائیں گے لیکن اللہ کی نظروں میں امت کے اس زبوں حالی کے سب سے بڑے ذمہ دار ہم اہل نظر ہی گردانے جائیں گے۔ ہر وہ چیز جس کو ہم نہیں سمجھ سکتے اسے معجزہ کہہ دینے سے بات ختم نہیں ہوجاتی، ہر ابتلاء یا پریشانی کو اللہ کی گرفت یا عذاب بتا کر اپنی ذمہ داریوں سے سبکدوش نہیں ہوا جاسکتا ہے، ہوش کے ناخن لیجئے اور امت کو توہم پرستی سے باہر نکالئے،
کیلیفورنیا کے لاس اینجلس کی آگ کو خدا کا عذاب بتاکر امت مسلمہ فلسطینی مسلمانوں کے خون سے داغدار اپنے دامن کو صاف نہیں کر سکتی، قبلہ اول اور فلسطینیوں کی موجودہ حالت کے لئے غیروں کی بہادری سے زیادہ ہماری بزدلی ذمہ دار ہے، دوسروں کی ٹکنیکل ایجاد سے زیادہ ہماری تکنیکی محرومیوں نے فلسطینی مسلمانوں کا قتل عام کیا ہے، اللہ نے کائنات ہمارے لئے مسخر کیا تھا ہم نے اسے غیروں کے رحم و کرم پر چھوڑدیا ،
نتیجہ آج پورا عالم اسلام مل کر اسرائیل کے ناجائز وجود کو مٹاپانے سے قاصر ہے، لاس اینجلس کی آگ خدا کا عذاب ہے اس سے اتفاق کیا جاسکتا ہے، لیکن اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے ہماری بداعمالیوں کا عتاب بیچارے معصوم فلسطینی بچے بوڑھے اور عورتیں جھیل رہی ہیں۔