شفیق فیضی / نیوز جی 24/ گذشتہ کچھ دنوں سے یوپی کے وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ جس انداز میں گفتگو کر رہے ہیں اس سے کہیں بھی نہیں لگتا کہ وہ ایک جمہوری اور سیکولر ملک کے کسی ریاست کے سربراہ ہیں۔ ان کی باتوں میں ایک ہی کمیونٹی اور اکثریتی طبقے کی ترجیحات شامل ہیں۔ ان کاایک ہی ایجنڈہ ہےکہ کیسے اکثریتی طبقے کو مسلمانوں کے خلاف لام بند کیاجائے۔ حال ہی میں یوگی آدتیہ ناتھ نے اشاروں اشاروں میں دو بار اکثریتی طبقے کو مسلمانوں کے خلاف متحد کرنے کی کوشش کی ہے۔ جبکہ سنبھل ایس ایچ او کے بیان کی جس طرح انہوں نے تائید کی ہے ۔ اس سے صاف سمجھ میں آتا ہے کہ یوگی آدتیہ ناتھ کے ارادے ٹھیک نہیں ہیں۔ اس سے پہلے یوپی کی اسمبلی میں کھلے عام انہوں نے کہا کہ جو ہمارا ہے ہمیں ملنا چاہئے، دوسرے لفظوں میں کہا جائے تو یہ ایودھیا کاشی کے بعد متھرا عید گاہ پر قبضہ کرنے کی کھلی دھمکی ہے۔
یوگی آدتیہ ناتھ کے حالیہ بیانات کا تجزیہ کیا جائے تو یہ واضح ہوتا ہے کہ بی جے پی اب اپنے اہداف کو طے شدہ پروگرام کے تحت پایہ تکمیل تک پہنچانے کا عزم مصمم کرچکی ہے۔ اس کے لئے آئین اور قانون کی ساری حدیں پار کی جاسکتی ہیں لیکن بی جے پی اپنے مقاصد سے پیچھے نہیں ہٹے گی۔ عوام کی جانب سے بھی بی جے پی کو مکمل حمایت مل رہی ہے۔ جس کے باعث فرقہ پرستوں کے حوصلے مزید آسمان چھو رہے ہیں۔
یوگی کے حالیہ بیانوں کے درمیان ہی عدلیہ نے سنبھل کی جامع مسجد کو متنازع قرار دیدیا۔ جس سے اس بات کومزید تقویت ملتی ہے کہ حکومت، انتظامیہ اور عدلیہ بھی بی جے پی کے نظریات کی تکمیل میں معاون ہے، ورنہ ورشپ پلیسیز ایکٹ 1991 کے خلاف جاکر عدالتیں فیصلے نہیں سناتی۔
ورشپ پلیس ایکٹ 1991 کی قانونی حیثیت کو بھی اسی لئے چیلنج کیا گیا ہے تاکہ ہندتوا کے نفاذ میں آنے والی ہر رکاوٹ کو ختم کیا جاسکے۔ ابھی جس طرح سے کورٹ کے فیصلے سامنے آرہے ہیں اس کو دیکھتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ آئندہ ایام میں ورشپ پلیس ایکٹ 1991 کو رد کیا جا سکتا ہے۔ جس کے بعد مسلمانوں کے تمام مقدس مقامات پر قبضے کی مہم مزید تیز ہوجائے گی۔ اس درمیان اگر مسلمانوں نے مزاحمت کی تو انہیں راستے سے ہٹانے کے لئے فرقہ وارانہ فسادات یا پھر فرضی مقدمات عائد کرکے مزاحمت کاروں کو جیل بھیجے جانے کے پورے پورے امکان ہیں۔
سنبھل ایس ایچ او کے بارے میں یوگی آدتیہ ناتھ کا بیان انتہائی خطرناک اور قابل مذمت ہے۔ انہوں نے جس انداز میں ہولی کے موقع پر نماز جمعہ کے گھروں میں ادائیگی کی بات کہی ہے اگر غلطی سے بھی مسلمانوں نے بھائی چارہ دکھانے کی خاطر ان کے مشورے کو تسلیم کرلیا تو بہت جلد پورے ملک میں نماز جمعہ کی ادائیگی پر پہلے جزوی پابندی عاید کی جائے گی، جس کے بعد باضابطہ نماز پر پابندی بھی عمل میں لائی جا سکتی ہے۔
مسلمانوں نے جب جب اپنے بھائی چارہ کا مظاہرہ کیا تب تب ہندو انتہا پسندوں کے سامنے انہیں منھ کی کھانی پڑی ہے۔ ورشپ پلیس ایکٹ 1991 کے خلاف جاکر چاہے مساجد کےسروے آرڈر کا ماننا ہو یا پھر بابری مسجد اور گیان واپی مسئلے میں ہنود پر آنکھ بند کرکے اعتماد کرنا، ہر بار مسلمانوں کو ملک کی انتظامیہ اور عدلیہ سے پشیمانی ہی ہاتھ لگی ہے۔
گذشتہ کچھ برسوں میں ملک کے حالات میں آئی تبدیلی بتاتی ہے کہ ملک میں سب کچھ ٹھیک نہیں چل رہا ہے۔ برسراقتدار پارٹی مسلمانوں کے خلاف جس قدر جارحانہ سلوک پر آمادہ ہے اس سے کہیں زیادہ اپوزیشن پارٹیاں مسلمانوں کو نظرانداز کرنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں۔
یہ بات حکومت اور آر ایس ایس سبھی جانتے ہیں کہ ملک کے سبھی مسلمانوں کو راستے سے ہٹا پانا ان کے بس کی بات نہیں ہے۔ اس لئے بی جے پی اور اس کی حامی جماعتیں عوام میں مسلمانوں کے خلاف نفرت کو بڑھاوا دے کر مسلم نسل کشی کی راہ ہموار کر رہی ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق جان بوجھ کر ملک میں ایسے حالات پیدا کئے جارہے ہیں تاکہ اکثریتی طبقے کو مسلمانوں سے لڑایا جائے۔
اگر سماج دشمن عناصر کا یہ ایجنڈا کامیاب ہوا تو دھیرے دھیرے ملک میں برما اور روہنگیا جیسے حالات خود بخود بن جائیں گے۔ حکومت کی منشا کے مطابق عوام ہی مسلمانوں کا صفایا کر دے گی۔ بعد میں سیاست مذمتی بیان جاری کرکے خود کو بری کر لے گی۔
عالمی پیمانے پر ملک کو شرمندہ نہ ہونا پڑے اس کے لئے کچھ زرخرید علماء کو مسلم دنیا میں نمائندہ بناکر پیش کیا جا سکتا ہے۔ جو بیرون ممالک اس ممکنہ نسل کشی کو بھارت کا داخلی معاملہ بتا کر حالات کو نارمل کر دیں گے۔
ایک انٹرنیشنل ایجنسی نے بہت پہلے بھارت میں مسلمانوں کے ممکنہ نسل کشی کی پیشین گوئی کی ہے جس کی مکمل تفصیل نیچے ویڈیو سے حاصل کی جاسکتی ہے۔
اس ویڈیو کے علاوہ ایک دوسری ویڈیو میں بھی ہندوستانی مسلمانوں کو ان کے ممکنہ نسل کشی سے آگاہ کیا گیا تھا لیکن بدقسمتی سے مسلمان ان پیشین گوئیوں کو مذاق سمجھ کر نظرانداز کردیتا ہے۔
مسلمانوں کے نظر انداز کرنے کی سب سے بڑی وجہ ان کی بے حسی ہے ان کو لگتا ہے کہ ایسا ہوپانا مشکل ہے۔ لیکن تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ اگر بابری مسجد کی جگہ رام مندر تعمیر ہوسکتا ہے اور ورشپ ایکٹ 1991 کے ہوتے ہوئے بھی گیان واپی کے بعد سنبھل جامع مسجد کو چھیننے کی سازش ہوسکتی ہے تو یہ ممکنہ نسل کشی بھی بڑی آسانی سے انجام دی جاسکتی ہے۔
ایسا اس لئے بھی ممکن ہے کیونکہ مسلمانوں کے تعلق سے پوری دنیا کا نظریہ مفروضی ہے۔ عالم اسلام کی بے حسی اور امن عامہ کے ٹھیکداروں کی نظر میں پوری مسلم امت ہی ناقابل برداشت ہے۔ اس لئے اگر یہ ممکنہ نسل کشی ہوئی تو پوری دنیا بالکل ویسے ہی خاموش تماشہ دیکھے گی جیسے فیلسطینی مسلمانوں کے قتل عام پر انہوں نے تماشہ دیکھا تھا۔
اگر بہت جلد ہندوستانی مسلمانوں نے اپنے خلاف لام بند کی جارہی بھیڑ کا حل نہیں نکالا تو مسلمانوں کے وجود کا فیصلہ عنقریب اکثریتی طبقے کی بھیڑ کرنے والی ہے۔ جو ظلم کی ساری حدیں پار کرنے کے بعد بھی سکون سے نہیں بیٹھے گی۔ دن کے اجالے میں مسلم خواتین کی عصمتیں تار تار کی جائیں گی۔
باپ کے سامنے بیٹی کی، بھائی سامنے بہن کی ، شوہر کے سامنے بیوی اور بیٹے کے سامنے اس کے ماں کی چادر عصمت تار تار کرنے کی پوری تیاری مکمل ہے بس کسی طرح ایک طوفان برپا کرنے کے اسباب پیدا کئے جارہے ہیں۔
اس سے پہلے کہ وہ طوفان کھڑا ہوجائے اورملک کے آئین کو کالعدم قراردیدیا جائے۔ خدا را ہوش کے ناخن لیجئے اور اپنے کل کی فکر کیجئے، ورنہ اس دن کا انتظار کیجئے۔ جب آپ کچھ بھی کرپانے کی حیثیت کھو دوگے۔