نائب امام عیدگاہ مولانا سبحان الٰہی نے ادا کرائی نماز جنازہ،معززین شہر سمیت ہزاروں کی تعداد میں عوام کی شرکت
کانپور(محمد عثمان قریشی) نمونہ اسلاف شہر کانپور کے معروف و بزرگ عالم دین مرکزی عیدگاہ کے امام عیدگاہ مولانا محمدشکیل قاسمی سابق استاذ مدرسہ جامع العلوم جامع مسجد پٹکاپور کانپور کی رحلت کی خبر پھیلتے ہی شہر کی فضاء مغموم ہو گئی۔ مولانا اس وقت70سال کے تھے۔مفتی صاحب کی ابتدائی تعلیم اوریا واقع آبائی گھر میں ہوئی۔ بعدہ‘ والدین کے اٹاوہ منتقل ہونے پر علاقہ کے قدیم تعلیمی ادارہ مدرسہ عربیہ قرآنیہ کٹرہ شہاب خاں میں پرائمری کے ساتھ ساتھ مدرسہ کے درجہئ چہارم تک تعلیم حاصل کی۔ کانپور کے استاذ القراء قاری احتشام علی ؒ کے مدرسہ واقع مسجد امامن سردار محلہ پیچ باغ چمڑا منڈی میں قرآن کریم کی حفظ تکمیل کی۔ مدرسہ اشرف المدارس ہردوئی میں مولانا شاہ ابرار الحق رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت اور سرپرستی میں رہتے ہوئے فارسی اول سے لے کر درجہ عربی سال چہارم تک کی تعلیم حاصل کی، مدرسہ مظاہر العلوم سہارنپور میں عربی پنجم، پھرمولانا قاری سید صدیق احمد باندویؒ کی نگرانی میں جلالین اور ہدایہ اولین کی جماعت میں شامل ہو کر حضرت باندویؒ کے زیر سایہ رہے۔ آگے کی تعلیم کیلئے دار العلوم دیوبند میں موقوف علیہ کی جماعت میں داخلہ لے کر اپنے پیر و مرشد مفتی محمود حسن گنگنوہیؒ کے زیر سایہ رہ کر تعلیم حاصل کرتے ہوئے دورہئ حدیث شریف کے بعد 1978میں درس نظامی کے عالمیت کے نصاب سے فراغت حاصل کی۔ فراغت کے دو مہینے بعد مفتی محمود گنگوہیؒ کی سرپرستی میں چلنے والی شہر کانپورکی حضرت حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانویؒ کی قائم کردہ معروف قدیمی دینی درسگاہ مدرسہ جامع العلوم جامع مسجد پٹکاپور میں سابق قاضی شہر و مدرسہ کے نائب مہتمم مفتی منظور احمد مظاہری ؒ کی ایما اورارباب انتظام کے حکم پر تدریس کی خدمت انجام دینا شروع کیااور تقریباً35سال تک مدرسہ جامع العلوم میں اپنی تدریسی خدمات انجام دیں، سن2012میں علالت کے سبب مدرسہ کے مہتمم و متولی محی الدین تاج خسرو کو رخصت علالت کی درخواست دے کر اپنے آپ کو مدرسہ کی تدریسی خدمات سے فارغ کر لیا۔ مولاناؒ کا اصلاحی تعلق شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا قدس سرہ کے خلیفہ خاص مفتی محمود حسن گنگوہی ؒ سے تھا۔ سال1979میں شہر کی قدیمی مسجد چوک صرافہ میں امامت کی ذمہ داری ملی، اس کے چند سالوں بعد سابق امام عیدگاہ قاری محمد الٰہی صاحبؒ کے مستقل بیمار رہنے کے سببشہر کی مرکزی عیدگاہ واقع بینا جھابر کے ذمہ داروں نے عیدگاہ میں عیدین کی نمازوں کی امامت کی ذمہ داری سونپی۔ زندگی کے آخری ایام میں صرف مسجد اور عیدگاہ کی امامت کے دنوں سلسلے جاری تھے، بقیہ وقت اپنے مطالعہ اور دیگرعلمی اور غیر علمی مشاغل میں گزرتاتھا۔ طویل عرصہ سے ذیابیطس کے مرض میں مبتلا تھے، گزشتہ چند روز علالت کے گزرے، 12دسمبر کی شب 11:45/بجے لیلامنی اسپتال میں دارفانی سے کوچ کر تے ہوئے اپنے مالک حقیقی کے حضور لبیک کہا۔ مولانا کے پسماندگان میں تین بیٹے محمد انس، محمد راغب، محمد شریف اور ایک بیٹی ہیں۔ نماز جنازہ نائب امام عیدگاہ مفتی سبحان الٰہی نے ادا کرائی۔ نماز جنازہ میں بڑی تعداد میں معززین شہر شریک ہوئے۔
مولانا محمد شکیل قاسمی کی رحلت پر مدرسہ جامع العلوم جامع مسجد پٹکاپور کے مہتمم و متولی محی الدین خسرو تاج نے اظہار افسوس کے ساتھ تعزیت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ شہر کے عوام نے آج اپنے درمیان سے ایک بزرگ عالم دین کھو دیا۔ مدرسہ جامع العلوم کیلئے کی گئی مولانا کی تدریسی خدمات قابل ستائش تھیں، انہیں خدمات ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی۔ علالت کی وجہ سے مفتی صاحبؒ نے مدرسہ سے رخصت لینے کے باوجود ہمیشہ مدرسہ کو اپنی محبتوں اور دعاؤں میں یاد رکھا۔ اللہ مفتی صاحبؒ کی بال بال مغفرت،جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام اور پسماندگان اور تلامذہ کو صبر جمیل عطا فرمائے۔
قاضی شہر حافظ معمور احمد جامعی نے نماز جنازہ میں شرکت کے بعد کہا کہ مرحوم مولاناؒ ہمارے والد گرامی سابق قاضی شہر مفتی منظور احمد مظاہریؒ کے منظور نظر تھے، مدرسہ جامع العلوم میں طویل عرصہ تک ساتھ ہی میں تدریسی خدمات انجام دیں۔ موجودہ وقت میں مولاناؒ کا شمار شہر کے بزرگ علماء میں ہوتا تھا، اللہ نے علم میں پختگی اور گہرائی عطا فرمائی تھی، پیچیدہ مسائل حل کرنے میں مہارت حاصل تھی، شہر کے بڑے بڑے علماء مولاناؒ سے استفادہ کرتے رہتے تھے۔ ان کی رحلت سے دینی و علمی حلقہ کا ناقابل تلافی نقصان ہوا ہے۔
رابطہ مدارس اسلامیہ دارالعلوم دیوبند مشرقی یوپی کے صدر مفتی اقبال احمد قاسمی صدر المدرسین مدرسہ مظہر العلوم نکھٹو شاہ نے مولانا ؒ کی رحلت پر تعزیت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ مولاناؒ کے اندر عالمانہ وقار،سیرت کا حسن، اصول پسندی،اپنے جاننے والوں کا پورا خیال، خوش مزاجی،شگفتہ مزاجی آپؒ کے امتیازی اوصاف تھے۔ ہر طرح کے اختلافات، پارٹی بندی اور امت کے اضطراب و انتشار سے اپنے کو دور رکھتے، باوجود کے وہ ضابطہ کے مفتی نہیں تھے لیکن فقہ و فتاویٰ پر گہری نظر رکھتے تھے، اسی لئے علماء اور عوام الناس کے لئے مرکزی حیثیت رکھتے تھے۔ خالی اوقات زیادہ تر کتابوں کے مطالعہ میں گزارتے تھے۔جب بھی ملاقات ہوتی تو ایسے ملتے جیسے ساتھی ہوں اور اپنے چھوٹوں کے چھوٹے چھوٹے کاموں کو سراہتے اور مسائل کے اندر رائے مشوروں کو بڑی اہمیت دیتے تھے۔ آخر عمر تک کل ہند اسلامک علمی اکیڈمی کی سرپرستی فرماتے رہے۔