By using this site, you agree to the Privacy Policy and Terms of Us
Accept
NewsG24UrduNewsG24UrduNewsG24Urdu
  • سرورق
  • آج کل
  • سیاست
  • عالمی خبریں
  • سپورٹ کریں
  • Hindi
Search
  • اتصل
  • مقالات
  • شكوى
  • يعلن
© NewsG24 Urdu. All Rights Reserved.
Reading: ہولی کی کہانی، ڈاکٹر عمار رضوی کی زبانی
Share
Notification Show More
Font ResizerAa
NewsG24UrduNewsG24Urdu
Font ResizerAa
  • سرورق
  • آج کل
  • سیاست
  • عالمی خبریں
  • سپورٹ کریں
  • Hindi
Search
  • سرورق
  • آج کل
  • سیاست
  • عالمی خبریں
  • سپورٹ کریں
  • Hindi
Have an existing account? Sign In
Follow US
NewsG24Urdu > Blog > مذہبیات > ہولی کی کہانی، ڈاکٹر عمار رضوی کی زبانی
مذہبیات

ہولی کی کہانی، ڈاکٹر عمار رضوی کی زبانی

Last updated: مارچ 17, 2025 2:17 شام
newsg24urdu 3 مہینے ago
SHARE

از۔ڈاکٹر عمار رضوی سابق کارگزار وزیر اعلی اترپردیش(بھارت) کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ ہولی، دیوالی، عید، کرسمس، یہ سب کسی خاص مذہب کی جاگیر ہیں۔ ایسا نہیں ہے۔ ہولی، دیوالی اور دوسرے بہت سے تہواروں پر مختلف مذاہب کے ماننے والوں نے بہت کچھ لکھا ہے۔ ہمیں ہولی اور دیوالی کے زمانے میں اپنا بچپن اور محمود آباد کا گھر یاد آتا ہے، جہاں ہولی سے تین چار دن پہلے ہی ہم لوگ اپنی گلک میں جتنے بھی پیسے ہوتے، ان سے رنگ اور پچکاری خریدنے کی تیاری کرتے۔ ہمارے بچپن کے دنوں میں پلاسٹک کا آغاز ہوا تھا، اور زیادہ تر پچکاریاں پیتل وغیرہ کی ہوتی تھیں، جو مہنگی پڑتی تھیں۔ اسی لیے ہم لوگ لمبے پور والے بانس کاٹ کر اکٹھا کرتے اور ان سے دیسی پچکاریاں بنایا کرتے تھے۔

ایک بالٹی میں رنگ بھر کر پہلے پورے محلے میں ہر گھر جا کر عورتوں اور بچوں کو ایک طرف سے رنگ لگاتے، اور کسی کو کوئی اعتراض نہ ہوتا۔ بس کوئی اتنا کہتا: "بھیا، منہ پر رنگ نہ لگے!”

ہائی اسکول کے بعد لکھنؤ آنا پڑا۔ اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے بعد جب 74-1973میں بہوگنا جی کی حکومت بنی، تب میں شیعہ کالج میں پرنسپل تھا۔ اس کے بعد بہوگنا جی نے مجھے 11 گوتم پلی میں رہنے کے لیے جگہ دی۔

گوتم پلی کی ہولی بہت مشہور تھی۔ صبح دس بجے سب لوگ میرے گھر آ جاتے، جن میں زیادہ تر سینئر آئی اے ایس افسران ہوا کرتے تھے۔ میرے گھر کے برابر میں سریندر موہن صاحب رہا کرتے تھے، نرپیندر مشرا جی، جو بعد میں کابینہ کے سیکرٹری ہوئے، اشوک چندر صاحب، اندر پرکاش، پی. سی. شرما صاحب، شری سنت کمار تریپاٹھی، شری نسیم زیدی، ششی بھوشن شرن صاحب، برجندر یادو جی، گوپی کرشن اروڑا صاحب، پرشانت کمار جی وغیرہ۔

- Advertisement -
Ad imageAd image

صبح دس بجے سب سے پہلے ہمارے گھر میں ایک دوسرے پر رنگ ڈالتے، گجیا کھاتے۔ یوگیندر نارائن جی آگے آگے رہتے، پھر سب کے گھروں میں جایا جاتا۔ ٹھنڈائی کا انتظام بھی رہتا اور کہیں کہیں اس میں بھنگ بھی ڈالی جاتی تھی۔ آخر میں یوگیندر نارائن جی کے گھر جاتے، جہاں ایک حوض ہوا کرتا تھا۔ اسی حوض میں سب ایک دوسرے کو دھکیلتے اور خوب لطف اندوز ہوتے۔

اس کے بعد ہم سب وزیر اعلیٰ کے گھر جاتے۔ ان کے دروازے سب کے لیے کھلے رہتے، چاہے وہ بہوگنا جی ہوں، یا نارائن دت تیواری، رام نریش یادو، بنارسی داس جی، وشوناتھ پرتاپ سنگھ، شری پتی مشرا، ویر بہادر سنگھ، ملائم سنگھ یادو، کلیان سنگھ، یا رام پرکاش گپتا۔ کسی کے بھی یہاں ہولی کے موقع پر ہمیں پوری آزادی حاصل تھی۔ سب لوگ 5 کالی داس مارگ کے لان میں زبردست ہولی کھیلتے تھے۔

وہاں نہ کوئی ہندو ہوتا، نہ مسلمان، نہ سکھ، نہ عیسائی—سب بھارت ماتا کے سپوت ہوتے اور مل کر ہولی کھیلتے تھے۔

ایک معزز شخصیت، جو بعد میں بھارت سرکار کے ہوم سیکریٹری بنے، ہولی کے رنگوں کے سخت مخالف تھے۔ اس لیے وہ ہولی کے دن اپنا گھر بند کر لیتے تھے۔ سریندر موہن جی اتر پردیش سرکار کے ہوم سیکریٹری تھے۔ میں نے ان سے کہا، "آپ ان کے گھر میں کود کر دروازہ کھولیے، کیونکہ اگر آپ کودیں گے تو ایف آئی آر نہیں ہوگا!” انہوں نے ایسا ہی کیا۔

اسی طرح داڑھی والے لوگوں کے لیے ہم لوگوں کے پاس خاص انتظام ہوتا تھا۔ جن کی داڑھی سفید ہوتی، ان کے لیے کالے رنگ کا پینٹ اور جن کی داڑھی کالی ہوتی، ان کے لیے سفید رنگ کا پینٹ موجود ہوتا۔

- Advertisement -

سب ایک دوسرے کے گھروں میں جاتے، پھر ہم لوگ راج بھون جاتے۔ وہاں میلے جیسا ماحول ہوتا۔ راج بھون کے دروازے بھی سب کے لیے کھلے رہتے تھے۔

موجودہ حالات میں جب میں ان سب باتوں کو سوچتا ہوں تو ایک خواب سا محسوس ہوتا ہے۔

ہولی اور دیوالی کے بارے میں نظیر اکبرآبادی نے جو کہا ہے، اس کی چند سطریں لکھ کر اپنی بات ختم کرتا ہوں:

- Advertisement -

جب فاگن رنگ جھمکتے ہوں، تب دیکھ بہاریں ہولی کی
اور دف کے شور کھڑکتے ہوں، تب دیکھ بہاریں ہولی کی

پریوں کے رنگ دمکتے ہوں، تب دیکھ بہاریں ہولی کی
خم، شیشے، جام جھلکتے ہوں، تب دیکھ بہاریں ہولی کی

2Like
0Dislike
100% LikesVS
0% Dislikes

You Might Also Like

مصنف و ادیب مفتی شعیب رضا نظامی فیضی کو "امام احمد رضا ایوارڈ” تفویض

قربانی خلوص و تقویٰ کا مظہر: مولانا شان محمد جامعی

شریعت کے خلاف فکری یلغار کے جواب میں فقہی و فکری ورکشاپ کا آغاز

فضائل و مسائل قربانی پر 9 روزہ پروگرام کا آغاز

قربانی کا گوشت تمام شرکاء کو برابر تقسیم کرنا ضروری

TAGGED:ڈاکٹر عمار رضویہولیہولی کی کہانی
Share This Article
Facebook Twitter Whatsapp Whatsapp LinkedIn Telegram Email Copy Link Print
Previous Article اونگل گائے:41 کروڑ میں فروخت ہونے والی اس گائے میں کیا خاص بات ہے؟ اونگل گائے:41 کروڑ میں فروخت ہونے والی اس گائے میں کیا خاص بات ہے؟
Next Article سخت بیماری میں روزہ چھوڑنا جائز، بعد صحت قضا واجب
Leave a review

Leave a review جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Please select a rating!

محمد ذیشان اور ابوشحمہ انصاری نے دی عیدالاضحی کی مبارکباد
بزمِ مدنی کے زیرِ اہتمام یادِ مائل میں سجی چراغوں جیسی شعری شام
مصنف و ادیب مفتی شعیب رضا نظامی فیضی کو "امام احمد رضا ایوارڈ” تفویض
قربانی خلوص و تقویٰ کا مظہر: مولانا شان محمد جامعی
مخلص نہیں کوئی بھی اردو زبان کا؟

Advertise

ہمارا موبائل اپلیکیشن ڈاؤن لوڈ کریں

NewsG24بھارت میں پروپیگنڈہ خبروں کے خلاف ایک مہم ہے، جو انصاف اور سچائی پر یقین رکھتی ہے، آپ کی محبت اور پیار ہماری طاقت ہے!
© NewsG24 Urdu. All Rights Reserved.
  • About Us
  • TERMS AND CONDITIONS
  • Refund policy
  • سپورٹ کریں
  • Privacy Policy
  • پیام شعیب الاولیاء
  • Contact us
Welcome Back!

Sign in to your account

Lost your password?