ہندوستانی سیاست: ایک تاریخی تجزیہ
تاریخی اعتبار سے یہ بات ناقابل انکار ہے کہ ہندوستان کی تقسیم نے ہندو مسلم تعلقات پر گہرے زخم چھوڑے۔ پاکستان کے قیام کا مقصد ہی ہندوستانی سیاست میں اکثریتی آبادی کو مرکز میں لانے کی ایک کوشش تھی۔ کانگریس پارٹی کے دور اقتدار میں سیکولرازم کو برائے نام فروغ ملا۔ تقسیم کے وقت جس سیکولر ہندوستان کا خواب دیکھا گیا تھاوہ ایک سراب ثابت ہوا۔
1980ء کی دہائی میں ہندوتوا کی سیاست نے بی جے پی کو طاقت بخشی۔ جس نے ہندو شناخت کو قومی تشخص سے جوڑا۔ اور آگے چل کر یہی ہندو شناخت ہندوستانی سیاست میں بڑاانتخابی مسئلہ بنا۔ آج بی جے پی اسی ہندتوا کے ایجنڈے پر چل کر یہاں تک پہنچنے میں کامیاب ہوئی ہے۔ حال فی الحال میں ابھی اس میں کسی گراوٹ کی امید بھی نہیں ہے۔
اہم وجوہات:
- انتخابی مفادات: مختلف سیاسی پارٹیاں ہندو ووٹ متحد کرنے کے لیے مسلم مخالف بیان بازی کو ہوا دیتی ہیں۔ بابری مسجد کا انہدام (1992ء) اور گجرات فسادات (2002ء) نے فرقہ وارانہ تقسیم کو مزید گہرا کیا ہے۔
- ہندوتوا کا نظریہ: آر ایس ایس اور بی جے پی جیسی تنظیمیں "ہندو راشٹر” کے تصور کو فروغ دے رہی ہیں۔ جس میں مسلمانوں کو "غیر ملکی” یا "دوسرے درجے” کا قرار دیا جاتا ہے۔ کچھ سیاسی حلقوں میں اب اس بات کی بھی چرچا ہے کہ مسلمانوں سے ان کا حق رائے دہی سلب کرلیا جائے۔
- میڈیا پروپیگنڈا: سوشل میڈیا اور اکثر میڈیا چینلز مسلمانوں کے خلاف منفی رائے عامہ بنانے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر صوتی آلودگی کے نام پر مسجدوں کے خلاف اکثریتی طبقے کو اشتعال دلانا۔ گاؤ کشی اور لنچنگ کی خبروں میں مسلمانوں کو سمگلرز کہنا۔ کسی بھی معاملے میں کورٹ کچہری سے پہلے ہی مسلمانوں کو دہشت گرد، یا شدت پسند کے نام سے موسوم کیا جانا۔
ہندوستانی سیاست کا موجودہ منظر نامہ:
2014ء کے بعد سے مرکزی حکومت کی جانب سے کئی اقدامات کو مسلم مخالف قرار دیا گیا ہے، جیسے:
- شہریت ترمیم ایکٹ (CAA): یہ قانون غیر مسلم مہاجرین کو شہریت دیتا ہے، لیکن مسلمانوں کو اس سے خارج کرتا ہے۔
- دفعہ 370 کا خاتمہ: جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے فیصلے کو مقامی مسلم آبادی کے خلاف قدم سمجھا گیا۔
- گائے کے نام پر تشدد: گائے کی اسمگلنگ کے نام پر مسلمانوں کے خلاف مظالم میں اضافہ ہوا ہے۔
ان اقدامات کے نتیجے میں مسلمانوں میں عدم تحفظ کا احساس بڑھا ہے۔ اقلیتی کمیشن آف انڈیا کی رپورٹس کے مطابق، مسلمانوں کی نمائندگی سرکاری ملازمتوں اور سیاست میں بتدریج کم ہوگئی ہے۔
سیاسی بیان بازی کا سماجی اثر
فرقہ وارانہ بیان بازی معاشرے کو خطرناک حدتک تقسیم کر رہے ہیں۔ دہلی فسادات (2020ء)، حجاب پر پابندی، اور مذہبی تقریبات پر پابندیاں اس کی واضح مثالیں ہیں۔ سوشل میڈیا کا غلط استعمال بھی مسلمانوں کے خلاف ماحول سازی میں اہم رول ادا کرتا ہے۔
کیا ہندوستانی سیکولرازم خطرے میں ہے؟
ہندوستان کا آئین سیکولرزم کی ضمانت دیتا ہے، لیکن موجودہ رجحانات اس بنیاد کو کمزور کر رہے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر سیاسی پارٹیاں فرقہ وارانہ بیان بازی سے باز نہ آئیں، تو ملک کی اتحادی ساخت اور سالمیت خطرے میں پڑ سکتی ہے۔ جس کا سیدھا سا مطلب ملک کی ایک اور تقسیم کی راہ ہموار ہوگی۔ امکانات اس بات کے بھی ہیں اس بار دو نظریاتی تقسیم کے بجائے مختلف نظریاتی تقسیم کی مانگ ہوسکتی ہے۔
ہندوستانی سیاست کے "مسلم مخالف” ہونے کی تصویر ایک پیچیدہ مسئلہ ہے، جس میں تاریخی تعصبات، انتخابی حکمت عملی، اور سماجی عدم برداشت شامل ہیں۔ تاہم، سول سوسائٹی، دانشوروں، اور اقلیتی گروپوں کی جانب سے امن کی کوششیں جاری ہیں۔ مستقبل میں، یکجہتی اور انصاف پر مبنی پالیسیاں ہی ملک کو فرقہ وارانہ تقسیم سے بچا سکتی ہیں۔