روزے کے فوائد | سدھارتھ نگر | محمد عثمان علیمیؔ | مذہب اسلام میں اکثر اعمال کسی نہ کسی پاکیزہ واقعہ کی یاد تازہ کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر صفا اور مروہ کی مقدس پہاڑیوں کے درمیان حاجیوں کا سعی کرنا حضرت سیدہ ہاجرہ رضی اللہ تعالی عنہا کی یاد تازہ کرتا ہے۔ اور سال میں ایک مرتبہ 10,11 اور 12 ذی الحجہ کی مقدس تاریخوں میں قربانی، حضرات خلیل اللہ اور اسماعیل ذبیح اللہ علیہما السلام کی یادگار ہے۔
غرضیکہ ہر عمل کسی نہ کسی واقعے کی یاد دلاتا ہے اسی طرح ماہ رمضان المبارک میں سے کچھ دن حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے غارِ حرا میں گزارے تھے، اس دوران آپ صلی اللہ علیہ وسلم دن کو کھانے سے پرہیز کرتے اور رات کو ذکر الٰہی میں مشغول رہتے تھے تو اللہ تعالیٰ نے ان دنوں کی یاد تازہ کرنے کیلئے روزے فرض کئے تاکہ اس کے محبوب صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی سنت تازہ ہوتی رہے۔
جہاں ایک طرف روزے کے بہت سارے دینی فائدے ہیں جیسے روزہ دار کے منہ کی بو اللہ تعالیٰ کے نزدیک مشک سے زیادہ پاکیزہ ہے اور کل بروز حشر روزہ دار کو اللہ تعالیٰ کی دیدار کا شرف ملے گا۔ جہاں روزہ جنت کی بشارت، خطاؤں کا کفارہ، تزکیہ نفس، تقوی پرہیزگاری، اجروثواب، قرب الٰہی، اور جہنم سے دوری کا بہترین ذریعہ ہے۔ وہیں دوسری طرف روزے سے جسمانی کھنچاؤ، ذہنی ڈپریشن اور نفسیاتی امراض کا خاتمہ بھی ہوتا ہے۔
روزہ دار خود کو کافی ہیلتھی اور صحت مند محسوس کرتا ہے جیسا کہ حدیث نبوی ہے: "روزہ رکھو، تندرست ہوجاؤ گے”
دوسری حدیث میں ہے’’ بے شک اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کے ایک نبی علیہ السلام کی طرف وحی فرمائی کہ آپ اپنی قوم کو خبر دیجئے کہ جو بھی بندہ میری رضا کے لئے ایک دن کا روزہ رکھتا ہے تو میں اُس کے جسم کو صحت بھی عنایت فرماتا ہوں اور اس کو عظیم اجر بھی دوں گا۔‘‘ (شُعَبُ الایمان ج۳)
آکسفورڈ یونیورسٹی کا پروفیسر مورپالڈ کہتا ہے: ’’میں اسلامی علوم پڑھ رہا تھا جب روزوں کے بارے میں پڑھا تو اُچھل پڑا کہ اسلام نے اپنے ماننے والوں کوکیسا عظیم الشان نسخہ دیا ہے۔ مجھے بھی شوق ہوا، لہٰذا میں نے مسلمانوں کی طرز پر روزے رکھنے شروع کردئے۔ عرصۂ دراز سے میرے معدے پر ورم تھا، کچھ ہی دنوں کے بعد مجھے تکلیف میں کمی محسوس ہوئی میں روزے رکھتا رہا یہاں تک کہ ایک مہینے میں میرا مرض بالکل ختم ہوگیا‘‘۔
روزے کے فوائد وغیرہ پڑھ کر آپ خوش تو ہوگئے ہوں گے مگر یاد رکھئے! علم طب مفروضات پر مبنی ہے سائنسی تحقیقات بھی حتمی اور یقینی نہیں ہوتیں، بدلتی رَہتی ہیں، ہاں اللہ و رسول جل جلالہ و صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلَّم کے اَحکامات اٹل ہیں وہ کبھی نہیں بدلیں گے۔ ہمیں فرائض اور سنّتوں پر عمل طب کے فوائد پانے اور صحت مند رہنے کے لئے نہیں بلکہ صرف اور صرف رضائے الٰہی کی خاطر کرنا چاہئے۔
لہذا نماز پڑھنا تاکہ تندرست رہوں، وضو کرنا کہ میرا بلڈ پریشر نارمل ہو جائے، یا دینی کتب کا مُطالعہ اِس لئے کرنا کہ میرا ٹائم پاس ہوجائے گا تو اس طرح کی نیت کرکے اعمال حسنہ بجالانے والوں کو ثواب نہیں ملے گا۔ ہاں اگر عمل اللہ تعالیٰ کو خوش کرنے کیلئے کریں گےتو ثواب بھی ملے گا اور ساتھ ہی ساتھ اِس کے جسمانی فوائد بھی حاصل ہو جائیں گے۔
حدیث قدسی ہے پروردگار عالم کا فرمان عالیشان ہے: ’’ روزہ میرے لئے ہے اور اس کی جزا میں خود ہی دوں گا۔ اللہ تعالیٰ کے اس ارشادِ پاک کا بعض علماء کرام نے یہ ترجمہ بھی کیا ہے جیسا کہ مراۃ المناجیح وغیرہ میں ہے: ’’ روزے کی جَزا میں خود ہی ہوں ۔‘‘ سُبحان اللہ! یعنی روزہ رکھ کر روزہ دار بذات خود اللہ تبارک و تعالٰی ہی کو پالیتا ہے۔