اسلام بحیثیت ضابطہ حیات زیادہ موثر ذریعہ تبلیغ
شفیق فیضی:اسلام محض ایک مذہب نہیں بلکہ ایک مکمل ضابطہ حیات ہے۔ اسلام بحیثیت ضابطہ حیات انسان کو پیدائش سے لے کر موت تک کے تمام مراحل میں رہنمائی فراہم کرتا ہے۔ اسلام کا مقصد صرف عبادت تک محدود نہیں، بلکہ یہ انسان کے معاشرتی، معاشی، سیاسی، اخلاقی اور روحانی پہلوؤں کو یکجا کرتا ہے۔ قرآن مجید اور حدیث نبویؐ میں زندگی کے ہر شعبے سے متعلق واضح ہدایات موجود ہیں، جو اسلام کو ایک جامع اور متوازن نظامِ زندگی بناتی ہیں۔
غلط فہمی
اسلام کے تعلق سے عوام میں ایک بہت بڑی غلط فہمی یہ پیدا کر دی گئی ہے،کہ اسلام ایک مذہب ہے اور اسلام کی یہی تعریف اس کے معاشرتی، معاشی، سیاسی، اخلاقی اور روحانی پہلوؤں کو محدود کردیتا ہے۔ اسلام کے تئیں اقوام عالم کی تنگ نظری کا بھی یہی سب سے بڑا سبب ہے ۔ تقریباًدنیا کا ہرانسان کسی نہ کسی مذہب سے خود کو وابستہ مانتا ہے، جس میں ایک حدتک خیر کی تعلیمات بھی پائی جاتی ہیں۔ ایسے میں اسلام کی دعوت بحیثیت ایک مذہب اتنی اثرانداز نہیں ہوتی ، جتنی اسلام بحیثیت ضابطہ حیات کے ہوسکتی ہے۔
اسلام کو عبادات اور امور دین تک محدود کرنے سے یہ منفی نظریہ بھی قائم ہوتا ہےکہ اسلام حصول دنیا میں رخنہ اندازی کرتا ہے، نیزدنیا کی دیگر معاشرتی، معاشی، سیاسی اوراخلاقی ضروریات اسلام کی ترجیحات میں شامل نہیں۔ حالانکہ اسلام کے تعلق سے ایسی بے بنیاد باتیں بے سر پیر ہیں۔
اسلام کا تصورِ حیات
اسلام کی بنیاد توحید پر ہے، یعنی اللہ تعالیٰ کی وحدانیت پر ایمان لانا، اور اس کے رسول کی رسالت کو تسلیم کرنا۔ یہ تصورِ حیات انسان کو یہ احساس دلاتا ہے کہ وہ صرف ایک اللہ کا بندہ ہے اور اسی کی رضا کے لیے کام کرنا ہے۔ اسلام انسان کو یہ تعلیم دیتا ہے کہ زندگی کا مقصد صرف دنیاوی کامیابی نہیں، بلکہ دنیا اور آخرت دونوں کی کامیابی ہے۔ قرآن مجید میں ارشاد ہے
"اور ہم نے انسانوں اور جنات کو صرف اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا ہے۔” (الذاریات: 56)
یہ آیت واضح کرتی ہے کہ انسان کی زندگی کا بنیادی مقصد اللہ کی عبادت اور اس کے احکامات کی پیروی ہے۔
امور دین اور دنیا
احکامات کی پیروی میں امور دین اور دنیا دونوں شامل ہیں، ایسا نہیں ہے کہ عبادت تک بندہ اپنے کو محدود کرکے کامیاب ہوسکتا ہے، بلکہ عبادات کے ساتھ ساتھ اس کو اموردنیا میں اللہ کے احکامات کو نفاذ کرنا یا اس کے نفاذ کے لیے جد وجہد کرنا بھی لازمی ہے۔ ورنہ عبادات بروز حشر انسان کے منھ پر مار دی جائیں گی۔ اموردین کے مقابلے امور دنیا کافی وسیع اور ضروری ہیں۔
بنیادی اعتبار سے اموردین پانچ باتوں، کلمہ شہادت، نماز، زکاۃ، رمضان کے روزے اور حج پر منحصر ہیں، ان میں سے بھی کئی امور، کچھ خاص حالت میں ساقط ہوجاتے ہیں، جیسےغریب پر زکاۃ کی ادائیگی، حج بیت اللہ اور بیمار پر رمضان کے روزے لازمی نہیں، ہاں صحت یاب ہونے کے بعد روزوں کی قضا ضرور لازمی ہے۔ایک خاص بات یہ ہے کہ اموردین صرف مسلمانوں کے لئے ہیں۔ اس کا مکلف غیرمسلم نہیں ہوتا۔
اس کے برخلاف امور دنیا مسلمانوں کے ساتھ ساتھ غیرمسلموں پر بھی عاید ہوتے ہیں۔ اس کا دائرہ امورد ین کے بنسبت زیادہ ہے۔ جن کو ہم آگے ایک ایک کرکے سمجھنے کی کوشش کریں گے۔
معاشرتی نظام
اسلام بحیثیت ضابطہ حیات معاشرے میں نظام عدل، مساوات اور اخوت کی بنیاد قائم کرتا ہے۔ اسلام بحیثت ضابطہ حیات ہر فرد کو اس کے حقوق دیتا ہے اور اس پر دوسروں کے حقوق ادا کرنے کی ذمہ داری عائد کرتا ہے۔ اسلام میں خواتین، بچوں، بوڑھوں اور غریبوں کے حقوق کو خاص اہمیت دی گئی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
"تم میں سے بہتر وہ ہے جو لوگوں کے ساتھ اچھا سلوک کرے۔”
اسلام نسلی اور طبقاتی تفریق کو ختم کر کے ایک مثالی معاشرہ تشکیل دیتا ہے، جہاں ہر فرد کو عزت اور احترام حاصل ہے۔ کوئی شخص نسل ، رنگ ، دولت ، غربت یا علاقائیت کی بنیاد پر افضل یا بدتر نہیں ہوتا۔ تقویٰ اور پرہیزگاری قربت الٰہی کا واحد معیار ہے۔
معاشی نظام
اسلام کا معاشی نظام انتہائی منصفانہ اور متوازن ہے۔ جس کا لوہا پوری دنیا مانتی ہے۔ اسلامی طرز معیشت سود، استحصال اور ناجائز ذرائع سے کمائی ہوئی دولت کو حرام قرار دیتا ہے۔ جس کا سیدھا سا مقصد معاشی بدعنوانی اور تجارتی چالبازیوں پر قدغن لگانا ہے۔ زکوٰۃ، صدقات اور خیرات کے ذریعے، محروم طبقات تک دولت کی منصفانہ تقسیم کو یقینی بناناہے۔ اسلام دولت کو صرف چند ہاتھوں میں مرتکز ہونے سے روکتا ہے اور معاشرے کے غریب طبقات کی مدد کرتا ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے
"اور ان کے مالوں میں حق ہے سائل اور محروم کا۔” (الذاریات: 19)
اسلام کا معاشی نظام انسانوں کے درمیان باہمی تعاون ،ہمدردی اور مساوی مواقع فراہم کرنے کو فروغ دیتا ہے۔
سیاسی نظام
اسلام کا سیاسی نظام شورائی اور عادلانہ اصولوں پر مبنی ہے۔ حکمران کو عوام کے سامنے جوابدہ ٹھہرایا گیا ہے اور عدل و انصاف کو ریاست کی بنیاد قرار دیا گیا ہے۔ قرآن مجید میں ارشاد ہے
"بے شک اللہ تمہیں عدل اور احسان کا حکم دیتا ہے۔” (النحل: 90)
جہاں حکمراں کو عدل و انصاف کا پابند بنایا گیا ہے، وہیں حکمرانوں کے انتخاب میں عوام کو اپنے درمیان میں سے سب سے بہتر کے انتخاب کی تلقین کی گئی ہے۔
اسلام کا سیاسی نظام تعداد کے بجائے تقویٰ اور امانت داری پر قائم ہے۔اسلامی ریاست کا مقصد عوام کی فلاح و بہبود اور ان کے حقوق کا تحفظ ہے۔ بروقت جمہوری نظام سیاست دنیاکا سب سے مقبول ترین سیاسی نظام ہے۔ جو کہیں نہ کہیں اسلام کے شورائی نظام سے ہی ماخوذ کیا ہے۔ جس میں اخلاقیات اور عادلانہ طرز سیاست کو پس پشت ڈال کر تعداد کو معیار بنا لیا گیا ہے۔
تعداد کے اسی معیار کے باعث معاشرے کے متحد بدعنوان افراد منتشر ایماندار افراد پر غالب ہیں ۔ جس کی وجہ سے امیری اور غریبی کے درمیان کھائی مزید گہراتی جارہی ہے۔ عدلیہ اورمحکمہ جاتی کارکردگی بدعنوانی کا شکار ہوگئی ہے۔
اخلاقی نظام
اسلام انسان کو اعلیٰ اخلاقی اقدار سے آراستہ کرتا ہے۔ صداقت، امانت، وفاداری، عفو و درگزر، اور حسنِ سلوک جیسے اوصاف کو اسلام میں بنیادی اہمیت حاصل ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
"تم میں سے بہتر وہ ہے جس کے اخلاق اچھے ہوں۔”
اسلام انسان کو ظلم، جھوٹ، فریب دہی اور غیبت جیسے رذائل سے بچاتا ہے۔ اسے پاکیزہ زندگی گزارنے کی ترغیب دیتا ہے۔ یہاں تک کہ کس عمر کے آدمی سے کس انداز میں گفتگو کرنا ہے کی یہ اسلام کا خاصہ ہے۔
روحانی نظام
اسلام انسان کی روحانی تسکین کا بھی بہترین ذریعہ ہے۔ دراصل یہی وہی اسلام کے امور دین ہیں جن کی پاسداری مسلمانوں کے ساتھ خاص ہیں۔ نماز، روزہ، حج اور زکوٰۃ جیسی عبادات انسان کو اللہ کے قریب کرتی ہیں۔ اس کے دل کو سکون و اطمینان بخشتی ہیں۔ قرآن مجید میں ارشاد ہے
"یقیناً اللہ کے ذکر سے دل کو سکون ملتا ہے۔” (الرعد: 28)
اسلام انسان کو مادی ترقی کے ساتھ ساتھ روحانیت کی طرف بھی راغب کرتا ہے۔ تاکہ انسان عدم اطمینان یا احساس کمتری کا شکار ہونے سے محفوظ رہ سکے۔
اسلام بحیثیت ضابطہ حیات: ایک عالمگیر پیغام
اسلام کا پیغام کسی خاص قوم یا خطے کے لیے نہیں، بلکہ پوری انسانیت کے لیے ہے۔ یہ نظامِ زندگی ہر زمانے اور ہر مقام پر قابلِ عمل ہے۔ اسلام انسان کو امن، محبت اور بھائی چارے کا درس دیتا ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے
"اور ہم نے تمہیں تمام جہان والوں کے لیے رحمت بنا کر بھیجا ہے۔” (الانبیاء: 107)
اسلام بحیثیت ضابطہ حیات: حاصل کلام
اسلام ایک مکمل اور جامع نظامِ زندگی ہے۔ انسان کو دنیا و آخرت دونوں میں کامیابی کی راہ دکھاتا ہے۔ یہ نظام عدل، مساوات، اخوت اور امن کا علمبردار ہے۔ اسلام کی تعلیمات پر عمل کر کے انسان نہ صرف اپنی زندگی کو بہتر بنا سکتا ہے، بلکہ معاشرے کو بھی مثالی بنانے میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔ اسلام کی روشنی میں زندگی گزارنا ہی حقیقی کامیابی اور سعادت مندی کا راستہ ہے۔
لمحہ فکریہ
اسلام کے آفاقی نظام حیات کو دنیا کے سامنے لانے میں ہم نے کوتاہی سے کام لیا ہے۔ اسلام اور اس کی تعلیمات کو امت مسلمہ نے عبادات و ریاضت تک محدود کردیا۔ جس کے نتیجےمیں پوری دنیا مسلمانوں کو حقارت اور نفرت کی نگاہ سے دیکھتی ہے۔ حالانکہ دنیا کا ہر باشعور طبقہ اس بات سے بخوبی واقف ہے کہ انسانیت کی بقا اور اس کی ترقی کے جو مواقع اسلام فراہم کراتا ہے۔ وہ دنیا کے کسی ضابطہ حیات یا آئیڈیالوجی میں ممکن نہیں۔
اسلام بحیثیت ضابطہ حیات: حالیہ تقاضہ
یہی وجہ ہے کہ بطور ایک مذہب، اسلام سے کسی کو کوئی پرہیزنہیں، لیکن اسلام بحیثیت ضابطہ حیات ملک اور معاشرے میں اسلام کے نفاذ پر اقوام عالم کی بھنویں تن جاتی ہیں۔ کیونکہ انہیں معلوم ہے کہ اگر اسلام کو معاشرتی، معاشی، سیاسی اور اخلاقی اعتبار سے دنیا نے اپنانا شروع کردیا تو پھر کائنات کا ہر نظریہ حیات اپنی موت آپ مرجائے گا۔
اس طرح یہودیوں کے سودی معیشت سے دنیا آزاد ہوسکتی ہے۔ جس سے عالمی سطح پر جاری حق و باطل کی جنگ میں اسلام کا غلبہ یقینی ہے۔ ساتھ ہی دوسری تہذیبیں بھی اسلام کی آغوش میں پناہ لینے پر مجبور ہوجائیں گی۔
دعوت و ارشاد کی معنویت
اسلام اور اہل اسلام کو اپنے دعوت و ارشاد کی معنویت کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ اسلام آپ سے محض نماز، روزے، زکاۃ اور صدقات کا تقاضہ نہیں کرتا۔ اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات کے طور پر اپنا نفاذ چاہتا ہے۔ جہاں ہرانسان کے پاس یکساں مواقع اور خوف سے پاک معاشرہ پا سکے، اور یہ سب تبھی ممکن ہوپائے گا۔ جب علماء اور خانقاہی حضرات کے ساتھ ساتھ اہل علم اور دانشور افراد، اسلام کو دنیا کے سامنے ایک مذہب کے بجائے نظام حیات کی شکل میں پیش کرنے کا بیڑہ اٹھائیں۔
اگر ایسا کرنے میں دس فیصدی بھی کامیابی مل گئی تو لوگوں کو اسلام کی دعوت دینے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ لوگ خوبخود جوق در جوق حلقہ اسلام میں پناہ لینے کو ترجیح دیں گے۔
حالیہ دور میں جتنے بھی لوگ حلقہ بگوش اسلام ہو رہے ہیں ۔ ان میں سے ایک فیصدی لوگ بھی اسلام کو بطور مذہب نہیں پڑھتے، عام طور پر لوگ اسلام میں کمیاں تلاش کرنے کی نیت سے اسلام کا مطالعہ شروع کرتے ہیں، لیکن جیسے جیسے اسلام کے معاشرتی، معاشی، سیاسی، اخلاقی اور روحانی تعلیمات ان پر آشکارا ہوتی ہیں، وہ خودبخود مسلمان بن کر اس کی تبلیغ و اشاعت کو زندگی کا مقصد بنا لیتے ہیں۔ اس لئے دنیا کو اسلام بحیثیت ضابطہ حیات سے متعارف کرانا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔
[…] تخمینہ کے حساب سے اونگل نسل کے بیل ایک بار میں پانچ سے چھ ایکڑ […]
[…] ان کی تعریف کی بلکہ کہا کہ ہمیں ایسے ہی ایکٹیو اور ذہین طلبہ کی ضرورت ہے۔ اس شاندار کارکردگی کے اعتراف میں اسکول […]
[…] چاہئے۔ خیر مسلمانوں کو کیا کرنا چاہئے۔ اس پر کسی اور آرٹیکل میں بات ہوگی فی الحال موضوع کی طرف پلٹتے […]
[…] نے واضح کیا کہ اسلامی تاریخ میں کہیں بھی کسی پر زبردستی اسلام مسلط کرنے کی مثال نہیں ملتی۔ بلکہ یہ دین حسنِ سلوک […]
[…] کیا کہ اس نے ہمیں حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی امت میں پیدا کیا۔ انبیاء کرام کی یہ خواہش تھی کہ انہیں حضرت […]
[…] رہتے ہوئے انہوں نے درج فہرست ذاتوں (دلتوں) کے حقوق کے تحفظ اور ان کے بااختیار بنانے کے لیے کئی مؤثر اقدامات کیے۔ […]