آج 30 مارچ 2025 کو نریندرمودی نے آر ایس ایس ہیڈکوارٹر ناگپور کا دورہ کیا۔ اس سے پہلے سابق وزیراعظم اٹل بہاری واجپئی نے27 اگست 2000 کو آر ایس ایس ہیڈکوارٹر کا دورہ کیا تھا۔ مرکزی وزیر نتن گڈکری اور مہاراشٹر وزیرا
علیٰ دیویندر فڑنویس بھی دورے میں شامل تھے۔
آر ایس ایس ہیڈکوارٹرپر اٹل بہاری واجپئی:
سال 2000 میں سابق وزیراعظم آنجہانی اٹل بہاری واجپئی کے ناگپور دورہ کے بعد 13 دسمبر 2001 کو بھارت کی پارلیمنٹ پر دہشت گردانہ حملہ ہوا جس میں کئی سیکورٹی گارڈ سمیت سبھی دہشت گردوں کو مار ڈالا گیا۔
پارلیمنٹ حملے کی پاداش میں ملک کے کونے کونے سے مسلمانوں کی بے شمار گرفتاریاں ہوئیں۔ این آئی اے اور دیگر حکومتی ایجنسیوں کی یکطرفہ کارروائی سے پورے ملک میں مسلمانوں کے خلاف ایک ماحول بنایا گیا۔
گودھرا سانحہ:
27 فروری 2002 کو گودھرا ریل سانحہ ہوا۔ جس میں تقریباً 59 ہندو عقیدت مندوں کا جانی نقصان ہوا۔ جس کے بعد گجرات کے مختلف شہروں میں فسادات پھیل گئے۔ گجرات فسادات 2002 کے وقت موجودہ وزیراعظم نریندر مودی، گجرات کے وزیراعلیٰ تھے۔ کئی خفیہ ایجنسیوں کے مطابق گجرات فسادات منصوبہ بند تھے۔ جس میں مقامی پولس اور ہندوانتہاپسندوں کو حکومت نے کھلی چھوٹ دے رکھی تھی۔
مودی کو کلین چٹ:
حالانکہ گجرات فسادات معاملے میں وزیراعظم نریندرمودی کو، عدالت نے کلین چٹ دیدی ہے۔ گجرات فسادات ریاستی مودی حکومت سے ناراض امریکہ نے انہیں ویزہ دینے سے منع کردیا تھا۔ معاملہ انتا سنگین تھا کہ اس وقت کے وزیراعظم اٹل بہاری واجپئی نے نریندر مودی کو راج دھرم نبھانے کی تلقین کی تھی۔ اٹل بہاری واجپئی نے یہاں تک کہا تھا کہ وہ اب کونسا منھ لے کر بیرون ممالک کا دورہ کریں گے۔
پوٹا قانون:
26 مارچ 2002 کو بھارت کی پارلیمنٹ میں انسداد دہشت گردی کے نام پر پوٹا قانون کو پاس کیا گیا۔ جس کے بعد ملک میں کسی بھی سانحہ میں اس کا استعمال مسلمانوں کو گرفتار کرنے کے لئے کیا گیا۔ پوٹا کو سیاسی اعتبار سے بھی ایک ٹول کی طرح استعمال کیا گیا۔ جس کے باعث اس قانون کو کئی سیاسی جماعتوں کی مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔ باالآخر 2004 میں اس متنازع قانون کو واپس لے لیا گیا۔
قانون اپنا کام کرچکا تھا:
قانون بھلے ہی واپس لے لیا گیا لیکن تب تک سیکڑوں مسلم خاندانوں کو تباہ کیا جاچکا تھا۔ پوٹا کی مار سے کئی مسلم گھرانے آج بھی ابھر نہیں پائے ہیں۔ چونکہ سال 2001 میں ورلڈ ٹریڈ سانحہ بھی وقوع پذیر ہواتھا۔ جس کو لے کر بھارت میں بھی اسلام اور مسلمانوں کو خوب گالیاں دی گئیں۔ مدارس اور مساجد کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔
بابری مسجد معاملے پر چرچہ:
سال 2000 -2003 کے درمیان سب سے زیادہ بابری مسجد اور رام جنم بھومی معاملے پر چرچا ہوئی۔ اسی درمیان ملک میں مذہبی نفرت کو سب سے زیادہ ہوا دینے کی شروعات ہوئی۔ جس کا نتیجہ آج پورے ملک کے سامنے ہے۔ یہ واقعات اٹل بہاری واچپئی کے 27 اگست 2000 دورہ کے بعد رونما ہوئے تھے۔
اب ایک بار پھر بی جے پی کے حالیہ وزیراعظم نریندر مودی نے آر ایس ایس ہیڈکوارٹر کا دورہ کیا ہے۔ جہاں انہوں نے ایک ایسی تنظیم کی تعریف کی ہے جس کا ملک کی تعمیر میں کبھی کوئی حصہ نہیں رہاہے۔
وظیفہ خور آر ایس ایس:
آزادی سے پہلے آر ایس ایس لیڈران انگریزوں کی دلالی یا وظیفہ خوری کیا کرتے تھے۔ ساورکر جیسے ملک دشمن کو دیش بھگت بتایا جارہا ہے۔ آر ایس ایس جس نے ایک عرصہ دراز تک بھارت کے ترنگے کو تسلیم نہیں کیا۔ اس کو ملک کا معمار بتایا جانا یوں ہی نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ آج بھی آر ایس ایس بھارت کے آئین کو تسلیم نہیں کرتا ہے۔ اس کی پوری کوشش اس بات پر مرکوز ہے کہ کس طرح بھارت کو ہندو راشٹر میں تبدیل کیا جائے۔
ہندو راشٹر کا منصوبہ:
آر ایس ایس ملک کے سیکولر ڈھانچے سے خوش نہیں ہے، اس کے بعد بھی ملک کے وزیراعظم کا آر ایس ایس ہیڈکوارٹر جاکر ان کے لیڈروں کو قوم کا معمار بتانا۔ میرے حساب سے کسی بہت بڑی انہونی کا پیش خیمہ ہوسکتاہے۔ فی الحال ملک کے حالات سال 2000 کے مقابلے کچھ زیادہ ہی سنگین ہیں۔ اس لئے مسلمانوں کو انتہائی دانشمندی سے کام لینا چاہئے۔ کسی بھی انہونی یا عمل کے ردعمل پر ایسی کوئی حرکت نہ کریں جو الٹا خود پر بھاری پڑ جائے۔
محتاط رہنے کی ضرورت:
اندیشہ ہے کہ آنے والے دنوں میں اسلاموفوبیا میں مزید اضافہ ہو، یا اسلام اور مسلمانوں کے خلاف مزید ہرزہ سرائی کی جائے۔ جان بوجھ کر ایسے بیانات بھی منظر عام پر لائے جا سکتے ہیں، جس سے مسلمانوں کو اشتعال دلایا جاسکے۔ اس لئے مسلم تنظیموں اور علماء کرام کو انتہائی حساس رہنا ہوگا، تاکہ کسی بھی انہونی یا سازش کو کامیاب ہونے روکا جاسکے۔
[…] اخباری رپورٹ کے مطابق خالص بھارت میں بیس کروڑ سے زاید مسلمان عید الفطر کی نماز میں شامل رہے، بغیر کسی نعرہ بازی کے، […]