کانپور ( محمد عثمان قریشی) جمعیۃ علماء اترپردیش کے نائب صدر مولانا امین الحق عبداللہ قاسمی نے جلیل القدر عالم دین، محدث کبیر، شیخ الحدیث حضرت مولانا سید محمد عاقل صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے سانحہ ارتحال پر گہرے رنج و غم کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ حضرت مرحوم کا انتقال ملت اسلامیہ اور علمی دنیا کے لیے عظیم خسارہ ہے۔ قحط الرجال کے اس دور میں ہر جانے والی ایسی نابغہئ روزگار شخصیت کا بدل بظاہر نظر نہیں آتا۔
مولانا امین الحق قاسمی نے کہا کہ حضرت مولانا سید محمد عاقل صاحبؒ نے ابتدائی تعلیم سہارنپور کی جامع مسجد میں حفظ قرآن کی صورت میں حاصل کی، اور مظاہر علوم سہارنپور سے درس نظامی کی تکمیل کی۔ آپ نے اپنے علمی سفر میں حضرت مولانا منظور احمد خان سہارنپوریؒ، مولانا محمد اسعداللہؒ، حضرت مولانا امیر احمد کاندھلویؒ اور فقیہ الاسلام مفتی مظفر حسینؒ جیسے جلیل القدر اساتذہ سے اکتساب علم کیا۔
حضرت مرحوم طالب علمی کے زمانے ہی سے اپنی غیر معمولی علمی لیاقت، تدریسی مہارت اور فنی صلاحیت کے سبب ممتاز تھے۔آپ پہلے تو مظاہر علوم میں تدریسی خدمات پر مامور ہوئے، اور پھر صدر المدرسین کے عظیم منصب پر فائز ہوئے۔ شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریا مہاجر مدنیؒ سے خلافت و اجازت حاصل کر کے آپ نے علمی اور روحانی میدان میں جو بلند مقام حاصل کیا وہ محتاج تعارف نہیں۔ آپ کی عظیم الشان تصنیف ”الدر المنضود“ (شرح ابوداؤد شریف) آج بھی علمی حلقوں میں بے پناہ مقبول ہے۔
مولانا امین الحق عبداللہ قاسمی نے اس موقع پر یاد دلایا کہ حضرت مولانا سید محمد عاقل صاحبؒ گزشتہ سال جامعہ محمودیہ اشرف العلوم جاجمؤ تشریف لائے تھے اور تمام اساتذہ و طلباء کو اپنی خصوصی دعاؤں سے نوازا تھا۔ ان کے روحانی کلمات اور محبت بھرے لمحات آج بھی اہلِ مدرسہ کے دلوں میں زندہ ہیں۔
کچھ عرصے سے حضرت مولانا مختلف بیماریوں میں مبتلا تھے۔ علاج و معالجہ کے سلسلے میں دہلی، میرٹھ اور حیدرآباد کے ہسپتالوں میں لے جایا گیا، مگر قضاء الٰہی کے سامنے کسی کی کوشش کارگر نہ ہو سکی، اور بالآخر حضرت اپنے رب کریم کے حضور پہنچ گئے۔
مولانا امین الحق عبداللہ قاسمی نے تمام علماء کرام، ائمہ مساجد، اساتذہ، طلبائے مدارس اور جمعیۃ علماء کے کارکنان سے مرحوم کے لیے دعائے مغفرت، بلندی درجات اور ایصال ثواب کی پرزور اپیل کی۔ انہوں نے دعا کی کہ اللہ تعالیٰ حضرت مرحوم کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے، ان کی علمی و روحانی برکات کو امت میں جاری و ساری رکھے، اور پسماندگان کو صبر جمیل عطا کرے۔
کارو بار میں شرکت کی نوعیت طے نہ ہونے کی صورت میں زیر کفالت بیٹے کاروبار میں معاون، غیر زیر کفالت بیٹے اجرت کے مستحق قرار
کل ہند اسلامک علمی اکیڈمی کانپور کی ماہانہ نشست میں جدید معاشی مسائل پر مدلل بحث، کفالت کا مفہوم وضاحت کے ساتھ طے
کانپور۔دورِ جدید میں پیش آنے والے پیچیدہ خاندانی اور مالیاتی مسائل کے حل کے لیے سابق قاضی شہر حضرت مولانا متین الحق اسامہ قاسمیؒ کے ذریعہ قائم کردہ شہر کے جید علماء و مفتیان کی مجلس ”کل ہند اسلامک علمی اکیڈمی” کی ماہانہ نشست عصر تا عشاء جمعیۃ بلڈنگ رجبی روڈ کانپور میں منعقد ہوئی۔ نشست میں اکیڈمی کے صدر مفتی اقبال احمد قاسمی، نائب صدر مفتی عبدالرشید قاسمی، جنرل سیکریٹری مولانا خلیل احمد مظاہری سمیت شہر کے ممتاز علماء و مفتیان نے شرکت کی۔
نشست میں زیر بحث مسئلہ یہ تھا مسئلہ یہ تھا کہ باپ بیٹے کے مشترکہ کاروبار میں کوئی ایک بیٹا باپ کے ساتھ اس طرح شریک رہا کہ اس کی شرکت و نوعیت طے نہیں ہوئی،کہ شریک یااجیر ہے یا معاون ہے؟ اور بیٹے کا کاروبار میں کوئی سرمایہ بھی نہ لگا ہو،اس سلسلے میں اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا کی تجویز کے مطابق حکم یہ ہے کہ
”اگر والد نے اپنے سرمائے سے کاروبا شروع کیا، بعد میں اس کے لڑکوں میں سے بعض شریک کار ہو گئے مگر الگ سے انھوں نے اپنا کوئی سرمایہ نہیں لگایا اور والد نے ایسے لڑکوں کی کوئی حیثیت متعین نہیں کی، تو اگر وہ لڑکے باپ کی کفالت میں ہیں تو اس صورت میں وہ لڑکے والد کے معاون شمار کئے جائیں گے، اور اگر باپ کی زیر کفالت نہیں ہیں تو عر فا جوا جرتِ عمل ہو سکتی ہے وہ ان کو دی جائے”۔اب سوال یہ ہے کہ مذکورہ تجویز میں زیر کفالت کا مفہوم کیا ہے؟
اسلامک فقہ اکیڈمی کے سیمینار کی تجویز کے مطابق بیٹا اگر والد کے زیر کفالت ہو تو بیٹے کی حیثیت والد کے معاون کی ہوگی،اس تجویز میں کفالت کا مفہوم محتاج وضاحت ہے چنانچہ اس پر غور و خوض ہوا اور یہ طے پایا کہ کفالت کے مفہوم میں مندرجہ ذیل صورتیں شامل ہیں۔
(۱) بیٹے والد کے ساتھ کھانے پینے، رہنے سہنے اور جملہ اخراجات میں باپ کے تابع ہوں۔
(۲) بیٹوں کی رہائش اور کھانا پینا تو الگ ہو لیکن اخراجات والد ہی پورے کرتے ہوں۔
(۳) اگر یہ صورت ہو کہ بیٹے کا کام الگ ہو اور وہ اپنی آمدنی وغیرہ باپ کے حوالے کردیتے ہوں پھر باپ اپنی منشا کے مطابق بیٹوں پر خرچ کرتا ہو،تو اس صورت میں بھی بیٹے زیر کفالت ہوں گے۔
(۴) اور اگر بیٹوں کے زیر کفالت ہونے یا نہ ہونے میں کوئی شبہ ہواور فیصلہ کرنا مشکل ہو رہا ہو تو عرف کو بنیاد بناکر فیصلہ کیا جائے گا۔
نشست کا آغاز مفتی واصف قاسمی کی تلاوتِ قرآن کریم سے ہوا۔ اس موقع پر جن علماء و مفتیان نے شرکت کی ان میں مولانا امین الحق عبداللہ قاسمی، مولانا انیس خان قاسمی، مولانا محمد انعام اللہ قاسمی، مفتی سید محمد عثمان قاسمی، مفتی اظہار مکرم قاسمی، مفتی سعود مرشد قاسمی، مفتی عزیز الرحمن قاسمی، مفتی معاذ قاسمی، مفتی حسان قاسمی، مفتی سلطان قمر قاسمی، مفتی محمد عاقب قاسمی، مولانا امیر حمزہ قاسمی، مولانا محمد الماس، مولانا محمد ذکوان قاسمی، مفتی امجد علی قاسمی اور مولانا محمد حذیفہ قاسمی شامل ہیں۔